پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے قرارداد مقاصد منظور کرانے اور پاکستان کا نام "اسلامی جمہوریہ پاکستان "رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی- قرار داد مقاصد میں اسلام کے جو سنہری اصول بیان کیے گئے ہیں ان کی عملداری کے معاملے میں مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنماو¿ں کا کردار افسوس ناک ہی رہا ہے- احتساب کسی بھی ریاست کو کامیابی سے چلانے کا بنیادی اصول ہوتا ہے- ریاست مدینہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے احتساب کو خصوصی اہمیت دی- مگر افسوس پاکستان کی مذہبی جماعتیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صاف اور شفاف احتساب کی روایت ہی قائم کرانے سے قاصر رہیں- پاکستان میں احتسابی اداروں کو سیاسی مخالفین کےسیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا- پاکستان کے با اثر لوگوں نے احتساب سے بچنے کے لیے نیب کے قوانین ہی تبدیل کر دیے- پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور پروفیشنل طبقات نے صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کر لی- ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے احتسابی کارروائی سے بچنے کے لیے دھمکی دی کہ ان کو اگر نیب کے دفتر میں بلایا گیا تو وہ ایک لاکھ بندے لے کر آئیں گے-
اسلامی احتساب کے بنیادی اصولوں کے مطابق اسلام بلا تفریق، شفاف اور یکساں ہونا چاہیے - محتسب کا بھی احتساب ہونا چاہیے - احتساب سر عام ہونا چاہیے تاکہ لوگ احتساب ہوتا دیکھیں اور عبرت پکڑیں - احتساب فوری اور نتیجہ خیز ہونا چاہیے -اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ میں شفاف احتساب کی شاندار روایات قائم کیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ کی مارکیٹ میں تشریف لے جاتے اور صارفین کے مفادات کا تحفظ فرماتے-صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اناج کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے- آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیاں تر ہو گئیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار سے پوچھا اے اناج کے مالک یہ کیا ہے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اس پر بارش کا پانی پڑ گیا تھا- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم نے گیلے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے- جو شخص ملاوٹ کرے اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں-ابن سعد کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعید بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کو مکہ کے بازار کا محتسب مقرر کیا-ابن عبدالبر کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابیات کو بھی محتسب نامزد کیا ان میں ایک سمرا بنت نہیک الاسدیہ شامل تھیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تاجر اپنا سامان منڈی میں لانے سے پہلے فروخت کر دیتے تھے جس کی وجہ سے مڈل مین منافع کماتا تھا اور عام صارف کو اشیاءمہنگی ملتی تھیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت کو ختم کر دیا اور پابندی عائد کی کہ تمام تاجر پہلے اپنا مال منڈی میں لے کر آئیں اس کے بعد فروخت کریں-اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو عامل بنا کر ایک شہر میں زکواة اور صدقات کا مال اکٹھا کرنے کے لیے روانہ کیا - جب یہ صحابی مال کے ساتھ واپس آئے تو انہوں نے مسجد نبوی میں اس مال کے دو ڈھیر لگا دیے اور کہا کہ ایک مال زکواة اور صدقے کا ہے جبکہ دوسرا مال مجھے ہدیہ کے طور پر دیا گیا ہے- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تم گھر پر بیٹھے رہتے تو پھر بھی تمہیں یہ تحفے اور تحائف ملتے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے مال کو بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دور احتساب کے حوالے سے بھی ایک مثالی دور تھا- آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں ایک کوڑا ہوتا تھا وہ ناجائز منافع خوروں ملاوٹ کرنے والوں دھوکہ دینے والوں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو موقع پر ہی فوری سزا دے دیتے تھے-حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنرز، والیوں اور امیروں سے اثاثہ جات کے گوشوارے طلب کرتے تھے- ایک دفعہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گوشوارے ارسال کیے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی ذاتی جائیداد میں غیر معمولی فرق نظر آیا- آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے ذاتی مال میں سے فالتو اثاثے لے کر بیت المال میں جمع کرا دیے-مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے لیے ایک منبر بنوایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ملی تو انہوں نے خط لکھا کہ تم نے اپنے لیے منبر بنوایا ہے تو اس پر چڑھ کر لوگوں کی گردن پر بیٹھنا چاہتے ہو کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ کھڑے رہو اور مسلمان تمہارے قدموں کے پاس رہیں- میں تمہیں زور دے کر کہتا ہوں کہ منبر کو فورا توڑ دو-ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے عبدالرحمن اور ایک اور شخص نے ایسا شربت پی لیا جس میں نشہ تھا- دونوں مدہوش ہو گئے اور اس کے بعد مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے کہ ان پر حد جاری کی جائے- گورنر عمرو بن عاص نے یہ سمجھتے ہوئے کہ خلیفہ کے بیٹے ہیں ان کو اپنے گھر کے اندر ہی کوڑے مار دیے اور سر منڈوا دیے- جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا تم نے عبدالرحمان کو اپنے گھر کے اندر کوڑے مارے اور اپنے گھر میں سر منڈوایا حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ میرے حکم کے خلاف ہے- عبدالرحمان تمہاری رعایا کا ایک عام فرد ہے تم اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے جیسا دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہو- حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر مالک اشتر کے نام تاریخی خط لکھ کر انہیں نظام حکومت چلانے کے لیے ہدایات جاری کیں جو آج بھی قابل عمل ہیں- اگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ اس خط میں بیان کیے گئے اصولوں پر عمل کرنے لگے تو پاکستان کی گورننس مثالی ہو سکتی ہے- پاکستان کے وفاقی اور صوبائی محتسب اگر درد دل رکھنے والے اللہ کے دوست ہوں تو شہریوں کی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں- پاکستان کے پڑھے لکھے افراد کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق احتساب کا نظام تشکیل دینے کے لیے توانا آواز بلند کرنی چاہیے -شفاف یکساں اور کڑے احتساب کے بغیر پاکستان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے-