سوشل میڈیا پر کھاریاں پولیس اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مابین تصادم کی وائرل ویڈیوز سے جو جگ ہنسائی ہوئی ہے اس کو بیان کرنے کے لیے شاید قرطاس کم پڑ جائے۔
سوشل میڈیا پر اندھا دھند ٹرولنگ نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے قلم کو اس حوالے سے جنبش دوں۔
قارئین ایک وقت تھا کہ جب پولیس کا وقار اتنا بلند تھا کہ راہ چلتے سپاہی کو بچے سلوٹ پیش کیا کرتے تھے۔ 60،70 کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری میں "صاحب بہادر" کے نام سے پولیس افسران کی جرات و شجاعت پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا۔ فلم بینوں کو یہ دکھایا جاتا تھا کہ چاہے کوئی تگڑی پارٹی ہو یا مظلوم شخص صاحب بہادر نے بلاتخصیص ان دونوں میں سے ملزم کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے۔
لیکن اب محکمہ پولیس کے حالات اور عوام کے ان کے بارے میں تاثرات خاصے تبدیل ہو چکے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے میں پولیس محکمہ سے وابستہ افراد کی جو تصویر ہے، وہ اس قدر مسخ ہو گئی کہ انہیں جذبات اور احساس سے عاری اور انسانی دردمندی سے خالی وجود سمجھاجاتا ہے۔
بھارتی فلم "میں ہوں ناں" میں شاہ رخ خان کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہے " میں ہوں ناں" آگے سے اس کو جواب آتا ہے "اسی بات کا تو ڈر ہے"۔ اسی طرح ہمیں پولیس کی موجودگی میں تحفظ کی بجائے ان سے لٹ جانے کا احساس ذیادہ ہوتا ہے۔ لوگ تھانے کے چکروں اور پھر خوار ہونے سے کتراتے ہیں۔ تھانے جانا کسی بھی شریف شہری کے لیے سوہان روح ہے۔ پاکستان میں Survival of the fittest کا کلیہ لاگو ہو چکا ہے۔ جو طاقتور ہے اس کے لیے زندگی آسان ہے اور جو کمزور ہے دھکے کھانا اس کا مقدر۔
قارئین اللہ کریم سے دعا کرتے رہیے کہ پاکستان میں چھٹیوں اور ہفتے کے اختتام میں کسی بھی قسم کا حادثہ یا ناگہانی آفت آپ پر نہ آئے کیونکہ نہ تو ہیلتھ سیکٹر آپ کی بات سنتا ہے اور نہ ہی کسی پولیس اسٹیشن میں آپ کو کوئی ریلیف دیا جاتا ہے۔ پی ایس ایل آ جائے تو اس وقت بھاری بھرکم نفری کی تعیناتی کر دی جاتی ہے دوسری جانب گلی محلوں میں ہونے والے جرائم کھل کر اپنا رنگ دکھانے لگتے ہیں اگر کوئی شکایت لے کر تھانے جائے تو وہاں ہو کا عالم ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم عوام کس سے منصفی چاہیں۔؟؟؟ المیہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہماری پولیس لندن پولیس سے بھی الرٹ اور چوکس نظر آتی ہے۔ فیض احمد فیض نے کیا خوب تصویر کشی کی کہ
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اگر بات کی جائے پولیس ریفارمز کی۔۔۔ کہ جی اصلاحات ہونی چاہیں۔ میں پولیس ریفارمز کو مدار بنا کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے گریز ہی کروں گی کہ یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے اور بحث سے کوئی نتیجہ نہ اخذ ہو سکے۔ میرے نزدیک پولیس ریفارمز کی ضرورت نہیں کیونکہ آگے ہی ریفارمز کے اتنے انبار لگے ہیں۔ اگر ضرورت ہے تو عمل درآمد کی۔۔۔ اگر ضرورت ہے تو نظام بدلنے کی۔۔۔
قارئین بہترین صحافی وہ ہوتا ہے جو کہ تجزیات اور خبروحقائق کو عوام الناس میں اس طرح پیش کرے کہ اس میں اس کی کوئی ذاتی دلچسپی،ذاتی بغض و عناد نہ ہو۔ کسی کی جانب اس کا جھکاو¿ نہ ہو۔ یکدم نیوٹرل ہو کر رپورٹنگ کرے۔ پاکستان کے اداروں کے توڑنے کی بات محو گفتگو نہ ہو۔ صحافتی کیرئیر میں تعمیری پہلو آگے رکھے تاکہ ملک و ملت میں مایوسی نہ پھیلے۔ اگر اسکے ساتھ کچھ اونیچ نیچ ہو جائے تو وہ صبر کرے۔ یہ نہیں کہ صحافی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھائے اور ذرا سی بات پر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر واویلا مچا دے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومتی ادارے صحیح اور نیک نیتی سے کام کر رہے ہوں لیکن اس کے ساتھ بدقسمتی سے کچھ برا ہو گیا ہو لیکن اگر متواتر شکایات مل رہی ہوں تو اس کے ازالے کے لیے مقتدر شخصیات تک خلق خدا کی آواز پہنچانا فریضہ عین ہے۔
بچپن میں پولیس کے محکمے سے خاصی وابستگی رہی کیونکہ 80 کے اواخر اور 90 کے اوائل میں خالہ پولیس سروسز میں دبنگ ڈی ایس پی اور نامور شاعرہ رہیں۔ اس لیے محکمہ پولیس سے ہمدردی اور لگاو¿ ہونے کے ساتھ ساتھ سسٹم کا اندازہ بھی ہے کہ سبھی آفیسرز ایک جیسے نہیں ہوتے۔
خیر موصوفہ کے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آیا ہے جس نے پولیس کے نظام کو قدیم، بےبودہ، بےبس باور کروایا۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص میرے 10 لاکھ لیکر مفرور ہوگیا۔ ماسک لگائے ایک عام شہری کی طرح پولیس اسٹیشن جا کر چیک ڈس آنر دکھائے۔ 4 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔۔۔ جی ایف آئی آر نہ ہوئی۔ میرے ذہن میں مستنصر حسین تاڑڑ کی کتاب کا ٹائٹل "الو ہمارے بھائی ہیں" ذہن میں گردش کرتا رہا۔۔۔ کہ کوئی بات نہیں چلیں آج ایف آئی آر ہو جائے گی چلیں کل ہو جائے گی۔
پولیس اہلکار حیل حجت سے کام لیتے رہے۔ ہمارا آبائی علاقہ اندرون لاہور سے ملحقہ ہے۔ ہم نےاب نام نہاد سوسائٹی میں سکونت اختیار کر لی ہے کہ جو شہر سے کافی دور ہے۔ دراصل بعد میں پتہ چلا کہ اس علاقے کا ایس ایچ او ایف آئی آر درج کرنے کے پیسے لیتا ہے۔ یہ بات معلوم ہونے پر میں سٹی ایس پی کے ہاں براہِ راست چلی گئی اور پی ایس او نے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ آپ کالمسٹ ہیں اور آپ کا اخبار صاحب کے میز پر ہوتاہے۔۔۔میٹنگ ہوئی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تمامتر ثبوتوں کے تناظر میں ایف آئی آر جلد ہوگی۔۔۔
قارئین یقین کیجئے کہ وہ ماتحت ایس ایچ او انتہائی ہٹ دھرم تھا کہ ڈی ایس پی ، ایس پی کا کہا ہوا میں اڑا رہا تھا۔ اس بات کو بھی 20 دن گزر گئے۔ پھر میں پہنچی محکمہ پولیس کی بڑی سرکار کے پاس جس نے براہ راست اس تھانے میں فون ملایا۔ ایس ایچ او غائب تھا۔ اس کے خلاف خود پولیس اہلکاروں کی جانب سے شکایات تھیں۔ بس پھر عزت مآب جناب نے ایکشن لیا اور اس کی تھانے سے ہجرت کر دی گئی۔(جاری)