سعودی عرب سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش۔ شیر افضل مروت سیاسی اورکور کمیٹی سے فارغ۔
شیر افضل مروت کھڑ کے دڑکے والے شخص ہیں۔ سیاست میں بھی کھڑاک کرتے نظر آئے ڈانگ سوٹے کی سیاست کو اپنایا۔ عمران خان کے قریب اپنے بیان میں آتش فشانی لا کر ہوئے جو شاید تحریک انصاف کے کچھ لیڈروں کو گوارا نہیں تھا۔ ان لیڈروں کو خان کے کان بھرنے کا موقع خود ہی دیدیا۔ جس کمیٹی میں گرجا کرتے تھے برسا کرتے تھے دھینگا مشتی کرتے اس کمیٹی سے آو¿ٹ کر دیا گیا ہے۔یہ کور کمیٹی تھی اس کے ساتھ سیاسی کمیٹی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے اور کسی کی شہہ پر بے بنیاد بات کی جائے تو ہر دو صورتوں میں پارٹی کی طرف سے ایکشن ہوتا ہے۔ مروت صاحب کی طرف سے بیان داغ دیا گیا کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں سعودی عرب بھی ملوث تھا۔ یہ اگر اندر کی بات تھی، تو بھی برداشت نہیں ہونی تھی۔ اگر جھوٹ بولا گیا تو وہ بھی ناقابل برداشت تھا۔اس پر خان صاحب نے ان کو بلایا ڈانٹا اور آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت کی تو بات ختم ہو گئی لیکن اب پارٹی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی طرف سے کہا گیاہے کہ عمران خان نے سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کرنے کی کوشش پر شیر افضل مروت کو کورکمیٹی سے نکالنے کا حکم دیا یے۔تاہم وہ پارٹی میں موجود رہیں گے۔ یہ ان کی صوابدید ہے کہ اتنی "عزت افزائی" کے بعد پارٹی کے لیے اپنی خدمات کب تک جاری رکھیں گے۔ مروت عمران خان کا پیغام محبت یا پیام شرمضر اورضرر خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب اور کراچی میں بھی ڈھول کی تھاپ پر پھیلاتے رہے۔ اس پر دھول اور دھپے تو پڑے مگر علی محمد خان، پرویز الٰہی‘ شہریار آفریدی کی طرح گرفتاری نہیں ہوئی۔جن کی ادھر ضمانت ہوتی ا±دھر پھر گرفتاری ہو جاتی۔ مروت کے حوالے سے کہیں نہ کہیں کھٹک اور کسک موجود تھی۔
٭....٭....٭
پاکستان میں پہلی بار خواجہ سرا سیاسی جماعت کی مرکزی کابینہ میں شامل۔
خواجہ سراو¿ں کو عموماً معصوم مخلوق سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں آج کل یہ زیادہ ہی ہتھ چھٹ ہو گئے ہیں۔ان کا ہاتھ کھلا بھی ہے تو کسی مظلوم پر نہیں بلکہ پولیس پر جسے عرف عام میں ظالم سمجھا جاتا ہے۔حالانکہ بہاولنگر واقعہ کے بعدان کے اندر سے ظلم کا پرزہ نکل گیاہے۔اب یہ اتنے ہی معصوم ہو چکے ہیں جتنے وہ ہیں، جن کے ساتھ ان کی لڑائیاں ہو رہی ہیں۔کھاریاں میں تھانے پر ہلہ بول کر خواجہ سراو¿ں نے پولیس اہلکاروں کو پھینٹی لگا دی۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری ایک ساتھی سے پولیس والوں نے چھیڑ چھاڑ کی اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔کٹ کھانے والےدونوں اہلکار کہتے ہیں کہ وہ خواجہ سرا کی چاروں ہاتھوں سے تلاشی لے رہے تھے تاکہ باڈی سرچ پراسیس جلدی مکمل ہو جائے کہ کرینہ کپور''بھائی جان بپھر گیا"-چند روز قبل اسلام آباد میں بھی 9 بھیک مانگنے والے خواجہ سراو¿ں کو پولیس نے گرفتار کیا تو اس پر ان کے ساتھیوں نے تھانے پر ہلہ بول کر کئی پولیس اہلکاروں کے سر کھول دیے تھے۔ہو سکتا ہے کہ ان کی ایسی جرات کو دیکھتے ہوئے پولیس سے تحفظ کے لیے لوگ ان کی خدمات حاصل کرنا شروع کر دیں۔یہ نہ ہو کہ انکی دلیری پر کل کچے کے ڈاکو بھی ان کو بھرتی کرنے لگیں۔مگر جس خواجہ سرا کو ایک سیاسی پارٹی نے اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے۔وہ ان سے بالکل ہی منفرد ہیں۔ یہ ڈاکٹر مہرب معیز خان ہیں جن کو عوامی نیشنل پارٹی میں سیکرٹری برائے حقوق خواجہ سرا منتخب کیاگیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مہرب معیز نے واشنگٹن میں واقع یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا اور بعد ازاں خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر مہرب معیز اس وقت جینڈر انٹر ایکٹو الائنس میں ڈائریکٹر پالیسی اینڈ جینڈر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس سے قبل وہ ورلڈ بنک اور مختلف ہسپتالوں میں خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ڈاکٹر مہرب معیزکا کوئی بھائی نہیں جبکہ چھ بہنیں ہیں جو تمام ڈاکٹرز ہیں۔ والدین نے انہیں لاوارث نہیں چھوڑا، گانے بجانے والے خواجہ سرا گروپوں کے حوالے نہیں کیا۔ڈاکٹر مہرب معیز کا کہنا ہے کہ انہیں زندگی کے ہر لمحے میں والدین کی سپورٹ حاصل رہی اور اسی سپورٹ کی وجہ سے انہوں نے بہت کامیابیاں اپنے نام کیں۔
٭....٭....٭
عالمی سطح پریوم مارخور منانے کا اعلان۔
مارخور کی نایاب ہوتی ہوئی نسل کے پیش نظر اقوام متحدہ کی طرف سے 24 مئی کو ہر سال مارخور ڈے منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان سمیت آٹھ ممالک کی پیش کردہ قرارداد منظور کرتے ہوئے ہر سال 24 مئی کو مارخور کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔کچھ حرام خوروں کی طرف سے مارخور تلور اور ہرنو ں کے بیجا اور غیر قانونی شکار کی وجہ سے یہ جانور اور پرندے ناپید ہو رہے تھے جس کی وجہ سے کائنات کا حسن بھی معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ قرارداد کے مطابق، یہ دن منانے کا مقصد مارخور کو تحفظ دینے کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر تعاون کو بڑھانے کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے جو زیادہ تر گلگت بلتستان، چترال، وادی کالاش، ہنزہ، آزاد کشمیر کے چند حصوں اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ انڈیا، افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور چند دیگر علاقے بھی اس جانور کا مسکن ہیں۔قدرتی وسائل کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے (آئی یو سی این ) کے مطابق مارخور کا شمار بھی ایسے جانوروں میں ہوتا ہے جن کی نسل کو معدومیت کے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان میں مارخور کے تحفظ کے لیے نہایت اہم اقدامات اٹھائے گئے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔2014ءکے بعد پاکستان میں مارخور کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو ایک دہائی کے عرصہ میں دو گنا ہو گئی ہے۔ اس دوران کسی برس مارخور کی تعداد میں اس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی نہیں ہوئی۔ اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر 3,500 سے 5,000 تک مارخور موجود ہیں جن کی بڑی تعداد خیبرپختونخوا میں پائی جاتی ہے۔مارخور پاکستان کا قومی جانور تو ہے مگر مخصوص علاقوں میں پائے جانے کی وجہ سے میدانی علاقوں کے بچوں تک نے اگر اسے دیکھا ہے تو صرف چڑیا گھروں میں دیکھا ہے۔پاکستان کے کئی شہروں میں سفاری پارک موجود ہیں وہاں پہ مارخور کو قدرتی ماحول فراہم کر کے اس کی افزائش کی جا سکتی ہے۔ہاتھی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا سوا لاکھ کا۔ جبکہ مارخور جب تک زندہ رہتا ہے کلانچیں بھرتا ہے کائنات کا حسن ہے اور جب یہ مرنے کے قریب آ جاتا ہے تو کروڑوں کا ہو جاتا ہے۔ اس کی ٹرافی ہنٹنگ کرائی جاتی ہے۔ شکاری کے سامنے ایسے مار خور پیش کے جاتے ہیں جو اپنی زندگی پوری کر چکے ہوتے ہیں- بڑھاپے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔چند ماہ قبل آخری جو ہنٹنگ ٹرافی کا لائسنس امریکی شکاری کو 86 کروڑ روپے میں جاری گیا تھا۔
٭....٭....٭
طلبہ کو الیکٹرک بائیکس دینے کا معاملہ، کورٹ نے پنجاب حکومت کو روک دیا۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے طلبہ کو الیکٹرک بائیک کے ساتھ ساتھ پٹرول بائیکس بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ طلبہ پر بوجھ کم کرنے کے لیے ڈاو¿ن پیمنٹ کم کرکے 25 ہزار اور ماہانہ قسط 25 ہزار سے کم کی گئی تھی۔حکومتوں کی طرف سے جب بھی ایسی سکیمیں آتی ہیں اس میں دیہاڑی بنانے والے بھی اپنا کام کر جاتے ہیں۔حکومتوں کی طرف سے نیک نیتی سے شروع کی گئی سکیموں سے غیر مستحق لوگ بھی فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔ایسی ممکنہ دو نمبری کرنے والوں کے راستے روکنے کے لیے ہائیکورٹ نے الیکٹر ک بائیکس کی قرعہ اند ازی عدالتی حکم کے ساتھ مشروط کر دی۔ عدالت کے اس حکم نامے سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا بلکہ اصلاح احوال کی طرف ایک قدم ہے۔اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف راغب کیا جائے۔ طلبہ کو الیکٹرک بائیکس دیں گے تو وہ ون ویلنگ کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ طالب علم لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر جائیں گے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہی طلبہ اگر والدین کے پیسوں سے بائیک خرید لیتے ہیں تو کیا وہ ون ویلنگ نہیں کریں گے اور لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے قریب نہیں پھٹکیں گے؟