سانحہ 9 مئی کیخلاف قوم کا افواج پاکستان کیساتھ اظہار یکجہتی یہ سانحہ ٹھوس جوڈیشل انکوائری کا متقاضی ہے

May 11, 2024

اداریہ

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گزشتہ سال 9 مئی کو برپا کئے گئے سانحہ کو ایک سال مکمل ہونے پر گزشتہ روز پوری قوم نے غم و غصے کے ساتھ یاد رکھا۔ اس سلسلہ میں ملک بھر میں یوم سیاہ منایا گیا‘ عوام کی طرف سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ سیاسی‘ دینی جماعتوں‘ سول سوسائٹی‘ انجمن تاجران‘ طلبہ‘ اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے نکالی گئی ان ریلیوں میں سانحہ 9 مئی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ روز پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں میں سانحہ 9 مئی کیخلاف مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں اور اس سانحہ کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس موقع پر پنجاب اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی بھی ہوئی اور اپوزیشن ارکان نے نعرہ بازی کرتے ہوئے قرارداد پھاڑ کر ہوا میں اڑا دی اور سپیکر ڈائس کا گھیراﺅ کیا۔ خیبر پی کے اسمبلی میں سانحہ 9 مئی کے حوالے سے کسی قسم کی قرارداد پیش کرنے سے گریز کیا گیا البتہ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور نے پشاور میں پی ٹی آئی کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معاف کریں اور سسٹم کو چلنے دیں۔ انکے بقول بانی پی ٹی آئی کی ساری باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ ہم بانی پی ٹی آئی کی وجہ سے خاموش ہیں۔ اگر ہم بے قصور ہیں تو ہم سے معافی کون مانگے گا۔ عمران خان کی اپیل پر گزشتہ روز پی ٹی آئی کے تنظیمی عہدیداروں اور پارلیمنٹیرین حضرات نے بھی ملک کے مختلف شہروں میں اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے ریلیاں نکالیں۔ اسلام آباد اور کراچی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور شعیب شاہین کی قیادت میں ریلی نکالی گئی۔ ان ریلیوں کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے مابین دھکم پیل بھی ہوئی اورپولیس نے ان ریلیوں کو منتشر کر دیا۔ 
گزشتہ سال 9 مئی کو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد سے گرفتاری کے فوری بعد لاہور‘ راولپنڈی‘ پشاور‘ گوجرانوالہ‘ مریدکے اور ملک کے ان دوسرے شہروں میں جہاں افواج پاکستان کی عمارتیں، تنصیبات اور قومی ہیروز کے مجسمے نصب ہیں‘ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پ±رتشدد دھاوا بولا گیا۔ بالخصوص لاہور میں کورکمانڈر ہاﺅس (جناح ہاﺅس)‘ راولپنڈی میں جی ایچ کیو‘ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت اور گوجرانوالہ‘ مریدکے میں پاک فوج کے شہداءکے مجسموں اور فوجی تنصیبات پر بے رحمانہ اور حب الوطنی کے جذبے سے عاری ہو کر تخریب کاری کی گئی اور قومی ہیروز کے مجسموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ لاہور کے جناح ہاﺅس کی تو وہاں موجود ہر چیز خاکستر کردی گئی۔ ان واقعات کی ملکی اور غیرملکی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا بالخصوص پی ٹی آئی کے میڈیا سیل نے بھی فوٹیج بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیں چنانچہ ان واقعات میں ملوث عناصر تخریبی کارروائیاں کرتے ہوئے اور پی ٹی آئی کے متعدد عہدیداران اس تخریب کاری کیلئے ہدایات جاری کرتے ہوئے واضح طور پر نظر آتے رہے اور ان ویڈیو کلپس کی بنیاد پر ہی ملک بھر میں پی ٹی آئی کے چھ ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں جن کیخلاف متعلقہ ریاستی قوانین کے تحت مقدمات درج ہوئے جو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے علاوہ فوجی عدالتوں میں بھی زیرسماعت آئے تاہم سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کیخلاف مقدمات کی سماعت کالعدم قرار دے دی۔ البتہ فوجی عدالتوں نے تخریب کاری کے ان واقعات میں ملوث پاک فوج سے متعلق افراد کیخلاف فوری سماعت کرکے مجرم ثابت ہونے والوں کو سزائیں بھی سنا دیں اور جن کیخلاف جرم ثابت نہ ہوا‘ انہیں بری کر دیا۔ اسی طرح بعض فوجی حکام کیخلاف جن میں اس وقت کے کورکمانڈر لاہور بھی شامل تھے‘ کورٹ مارشل کی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی جبکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں سانحہ 9 مئی کے حوالے سے مقدمات ابھی زیرسماعت ہیں جو بوجوہ التواءکا شکار ہو رہے ہیں۔ 
اسی تناظر میں پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے سات مئی کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کیخلاف مقدمات کی سماعت مکمل کرنے اور مجرم ثابت ہونے والے افراد کو قانون کے مطابق سزائیں دینے کا تقاضا کیا۔ یہی تقاضا بعدازاں وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی وزراءسمیت حکومتی شخصیات کی جانب سے بھی کیا گیا جبکہ گزشتہ روز 9 مئی کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور دوسرے سروسز چیفس نے بھی گزشتہ سال کے سانحہ 9 مئی کی مذمت کرتے ہوئے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی قیادتوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہماری قومی تاریخ کے اس سیاہ دن کو سیاسی طور پر متحرک اور برین واشڈ شرپسندوں نے بغاوت کی اور جان بوجھ کر ریاستی اداروں کیخلاف تشدد کا سہارا لیا۔ ان عناصر نے جان بوجھ کر ریاست کی مقدس علامتوں اور قومی ورثے سے تعلق رکھنے والے مقامات کی توڑ پھوڑ کی جو ملک میں خود ساختہ اور تنگ نظر انقلاب لانے کی ناکام کوشش تھی۔ ان شرپسندوں کا بنیادی مقصد ملک میں افراتفری پھیلا کر عوام اور مسلح افواج کے درمیان تصادم کو ہوا دینا اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنا تھا جبکہ عسکری قیادت اور مسلح افواج نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تخریب کاروں اور انکے سرغنوں کے ساتھ ساتھ انکے منصوبہ سازوں کی گھناﺅنی سازش کو ناکام بنایا۔ ان عناصر کے ساتھ نہ تو کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دی جائیگی۔ ملک کی عسکری قیادتوں نے اس حوالے سے افواج پاکستان کے وقار اور عزت کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ادارہ جاتی سطح پر مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔ 
سانحہ 9 مئی کے اگلے روز بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کے دوران 9 مئی کے واقعات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چونکہ خود یہ عندیہ دیا تھا کہ اگر انہیں رہا نہ کیا گیا اور پی ٹی آئی کے ساتھ سختیاں روا رکھی گئیں تو 9 مئی سے بھی زیادہ سخت ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری بالواسطہ طور پر اسی وقت قبول کرلی تھی جبکہ ان واقعات کی گواہ ویڈیو کلپس کی بنیاد پر بھی تخریب کاری کرنے اور اسکی ہدایات جاری کرنے والوں کا کھرا پی ٹی آئی کی جانب ہی نکلتا ہے جس کے حوالے سے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں متعلقہ سکیورٹی اداروں کی پیش کردہ خصوصی رپورٹ میں بھی 9 مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے براہ راست ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف نے باور کرایا کہ 9 مئی کے واقعات ریاست‘ افواج پاکستان اور آرمی چیف کیخلاف بغاوت تھی‘ ان میں شریک عناصر کو ایسی سزا ملے گی کہ رہتی دنیا تک یاد رہے گی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی اس امر کا اظہار کیا کہ 9 مئی کے ورغلائے گئے لوگوں کو سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے ہی شک کا فائدہ دیا جا چکا ہے مگر معصوم بننے والے اصل ذمہ داروں کو بہرصورت حساب دینا پڑیگا۔ ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ یا ڈیل نہیں ہو سکتی۔ 
بے شک یہ سانحہ ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی اتنا گھمبیر ہے کہ اس میں ملوث ان ملزمان کو اب تک انصاف کی عملداری میں کیفرکردار کو پہنچا دیا جانا چاہیے تھا جن کی باقاعدہ شناخت ہو چکی ہے اور ان کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ اگر ایک ریاستی ادارے نے ان واقعات میں ملوث اپنے لوگوں کو سزائیں دے دی ہیں اور بے گناہوں کو چھوڑ دیا ہے تو کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھنے والے ان واقعات کے ملزمان کیخلاف بھی اب تک قانون و انصاف کے تقاضے پورے ہو جانے چاہئیں تھے۔ یقیناً اس تاخیر کے باعث ہی سیاسی اور عسکری قیادتوں کی جانب سے اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا تقاضا سامنے آرہا ہے اور دانشمندی بھی یہی ہے کہ ایک مکمل بااختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ عمران خاں نے خود بھی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے 9 مئی کے واقعات کی جامع تحقیقات کا تقاضہ کیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا کہا ہے جو سانحہ 9 مئی کی حساسیت کی بنیاد پر قابل پذیرائی ہونا چاہیے۔ قوم بہرحال سانحہ 9 مئی کے تمام کرداروں کے ساتھ مکمل اور جلد انصاف ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ اگر سیاست کے اس چلن پر کسی قسم کی مفاہمت کی گئی تو کل کو کوئی بھی سیاسی، دینی گروہ اور پریشر گروپ اپنے مفاد پرستانہ عزائم کی تکمیل کے لیئے کسی بھی ریاستی ادارے پر چڑھائی کرنا اپنا حق گردان لے گا۔

مزیدخبریں