کوشش ہے واپسی کو یادگار بناؤں، پاکستان ورلڈ کپ جیتے!!

فاسٹ باؤلر محمد عامر ریٹائرمنٹ واپس لینے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ آل راونڈر عماد وسیم نے بھی ریٹائرمنٹ واپس لی ہے اور دونوں کھلاڑی نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں پاکستان کی طرف سے کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ محمد عامر اور عماد وسیم کو پاکستان ٹیم میں شامل کیے جانے کے طریقہ کار پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ کرکٹ کے حلقے اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں لیکن عوامی سطح پر بالخصوص محمد عامر کی واپسی کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ دونوں کرکٹرز کو آئر لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے بھی سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے قوی امکان ہے کہ محمد عامر اور عماد وسیم ورلڈکپ میں بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ محمد عامر نے 2020 میں اس وقت کی ٹیم مینجمنٹ کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ اس دوران وہ پاکستان سپر لیگ سمیت دنیا بھر میں ٹونٹی ٹونٹی لیگز کا حصہ بنتے رہے۔ ریٹائرمنٹ واپس لینے اور قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد محمد عامر کہتے ہیں کہ میں ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کھیل کر اسی فارمیٹ میں واپس آیا ہوں، پاکستان کا نمبر ون 2020 ٹورنامنٹ پاکستان سپر لیگ ہے۔ اس ٹورنامنٹ کی بنیاد پر ہی سلیکشن ہوتی ہے یہاں صرف ایک سیزن نہیں  میری ہر سال کارکردگی سب کے سامنے ہے، ویسٹ انڈیز میں عالمی کپ ہو رہا ہے میری اور عماد وسیم کی کیربیئن پریمیئر لیگ میں کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔  پاکستان کے فاسٹ باؤلر محمد عامر نے 2010 واقعے پر تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ رمیز راجہ کو اب بڑے ہو جانا چاہیے، کتنا وقت گذر گیا ہے اب تو ان کی باتوں کا جواب دینے کا بھی نہیں کرتا، اس واقعے کو چودہ سال گذر گئے ہیں کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم آگے بڑھ جائیں، ڈومیسٹک کرکٹ کو ترجیح دینی چاہیے لیکن اگر کسی کو ون ڈے یا ٹیسٹ میچوں کے لیے منتخب کرنا ہے تو پھر فور ڈے اور قومی ون ڈے ٹورنامنٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، میں خود اس سوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں لیکن اگر کسی کو 20،20 کے لیے منتخب کرنا ہے تو پی ایس ایل کی پرفارمنس کو ہی اہمیت دی جائے گی۔ 
 محمد حفیظ نے قومی ٹیم کا ڈائریکٹر بننے کے بعد خود مجھے فون کیا تھا اور کہا کہ جو گذر چکا ہے اسے بھول جائیں آئیں پاکستان کے لیے کھیلیں ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں۔ محمد حفیظ نے مناسب انداز مخں گفتگو کی، عزت کا خیال رکھا میں ان کا مشکور ہوں۔ محمد وسیم، کامران اکمل اگر کہتے ہیں کہ مجھے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلے بغیر لایا گیا یے تو وہ یہ سمجھ لیں کہ ون ڈے ہا ٹیسٹ کرکٹ کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ سے سلیکشن ہونی چاہیے لیکن 2020 کے لیے پی ایس ایل سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے وہاں اور دنیا بھر میں لیگ کھیل کر سلیکشن کے لیے دستیاب ہیں اپنے دماغ سے سوچیں کہ کیا بات کر رہا ہوں آئندہ چار پانچ برس کرکٹ کھیل سکتا ہوں ویرات کوہلی ورلڈ کلاس پلیئر ہیں انڈر پریشر اور بالخصوص پاکستان کے خلاف ان کی کارکردگی بہت شاندار رہی ہے ورلڈکپ میں روہت شرما اور ویرات کوہلی سمیت بھارتی بیٹنگ لائن کو تباہ کرنے کی کوشش کروں گا اور پاکستان کی کامیابی میں کردار ادا کرنے کی کوشش کروں گا ایک اپنا فزیو رکھا ہوا ہے جو میری دیکھ بھال کرتا ہے آئندہ چار پانچ برس مزید کرکٹ کھیل سکتا ہوں نو برس تک کھیل کے میدانوں سے دور رہنے کا دکھ نہیں یہ میری قسمت میں لکھا تھا جو اللہ نے دیا ہے اس پر شکر ادا کرتا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن