پاکستان کے کروڑوں لوگوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود کچھ کرنے کے بجائے سب کچھ دوسروں پر چھوڑتے ہیں، سیاسی معاملے میں سب کچھ سیاسی رہنماؤں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، مذہبی معاملات میں سب کچھ مذہبی رہنماؤں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، کاروباری معاملات میں سب کچھ دوستوں یا ملازمین پر چھوڑ دیا جاتا ہے حتی کہ گھریلو معاملات میں بھی اپنے کرنے کے کام گھر کے دیگر افراد پر ڈالنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ احساس ذمہ داری یا اہم معاملات میں کمزور فیصلہ سازی بہت اہم مسئلہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر گھر سے شروع ہوتا ہے اور مختلف مراحل میں قومی سطح تک پہنچتا ہے تو پھر اس کا نقصان بھی بڑا ہوتا ہے۔ کاروباری طبقے میں استحصال کرنے والے موجود ہوتے ہیں وہاں استحصال ہوتا ہے، مذہبی حلقوں میں اپنے انداز سے عوام میں تقسیم نظر آتی ہے اور لوگوں میں سوال کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ یہی حالات سیاسی معاملات میں بھی نظر آتے ہیں، سیاسی قیادت بھی اپنے ووٹرز کو صرف اور صرف ووٹ کی حد تک اہمیت دیتی ہے، ذہن کو وسعت دینے اور بڑے کاموں کے لیے کسی بھی سطح پر اور کسی بھی شعبے میں لوگوں کو تیار نہیں کیا جاتا، ہر شعبے میں ہر سطح پر اختیارات کی تقسیم کے فارمولے کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور مخصوص شخصیت کو طاقت کا مرکز بنا کر لوگوں کو اس کے اردگرد گھمانے کی کوششیں ہر وقت ہوتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے لوگ یہ کام دہائیوں سے کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام ہر دوسرے شعبے میں اپنے بڑوں کے ذہنی غلام ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اس ذہنی غلامی میں خوش بھی ہیں۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد مولانا فضل الرحمٰن کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے غلامی کے بجائے جیلیں بھرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مطلب یہ حیران کن بات ہے کہ آپ اپنے ووٹرز کو ذہنی غلام بنائے رکھیں ان کی آزادی کے لیے کوئی کام نہ کریں لیکن خود حکومت میں نہ ہوں تو یہ سمجھیں کہ انہیں غلام بنایا جا چکا ہے حالانکہ غلام تو مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر سیاسی قیادت نے ملک کے کروڑوں لوگوں کو بنا رکھا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ "ہماری تحریک کا قافلہ آگے بڑھے گا، معاملہ جیلوں تک گیا تو جیل بھریں گے لیکن غلام بن کر زندہ رہنے کیلئے تیار نہیں، دھاندلی کی اسمبلی کسی بھی جگہ قبول نہیں، اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔ یہ عوامی تحریک صرف جلسوں تک محدود نہیں رہے گی، بات دلائل کے ساتھ ہو گی دھونس دھمکی نہیں چلے گی۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جعلی اسمبلیاں قبول نہیں، یہ اسمبلیاں ہماری نمائندہ نہیں، نواز شریف کی حکومت میں فاٹا انضمام کا فیصلہ ہوا، میں نے کہا انضمام ٹھیک نہیں لیکن ہماری بات نہیں مانی گئی۔ امریکی مجھے کیوں کہتا ہے کہ آپ کیوں انضمام کے خلاف ہیں، ہم نے انضمام کی مخالفت کی تھی، آج پوچھتا ہوں کہ فاٹا کے عوام کہاں ہیں۔ فاٹا کو دس سال میں ایک ہزار ارب دیں گے، 8 سال گزر گئے لیکن انہیں ایک سو ارب بھی نہیں دئیے گئے۔ فاٹا کے عوام آج نہ ادھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے، میں نے پشتونوں اور بلوچوں کے حق کی بات کی تھی، ہم بلاوجہ نہیں لڑتے، میرے فیصلے بھی تاریخ میں لکھے جا رہے ہیں۔"
مولانا جیلیں بھریں، ضرور بھریں لیکن عوام کو مزید گمراہ نہ کریں، تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ آپ اور اس فرسودہ نظام میں شامل مختلف وقتوں میں مولانا کے ساتھی اور مخالفین نے پاکستان کے معصوم اور سادہ لوح افراد کو ذہنی اور معاشی طور پر غلام بنا کر رکھا ہوا ہے، مولانا اگر واقعی غلامی میں نہیں رہنا چاہتے تو سب سے پہلے لوگوں کو ذہنی طور پر آزاد کریں، آپ کے کتنے ہی ووٹرز اور عقیدت رکھنے والے ہیں جو آپ کے فیصلوں کی مخالفت کر سکتے ہیں، آپ کی سوچ کو چیلنج کر سکتے ہیں، آپ کی سیاسی حکمت عملی کو غلط قرار دے سکتے ہیں، یہ کیسی غلامی ہے جس کا احساس صرف اور صرف حکومت سے دوری پر ہوتا ہے، اگر آپ واقعی قوم کی آزادی کے خواہشمند ہیں تو پہلے انہیں اپنی جماعت کے فیصلوں پر تنقید کی آزادی دیں، اس حوالے سے لوگوں میں بحث و مباحثہ کریں خود کو کٹہرے میں کھڑا کریں اور لوگوں سے کہیں کہ سوال کریں۔ لوگوں کو اختیار دیں کہ وہ پوچھ سکیں، جے یو آئی کے سیاسی فیصلوں پر تنقید کریں اور آپ جواب دیں جس روز قو م غلامی سے نجات مل گئی اس دن کسی بھی حکومت کے خلاف کوئی تحریک شروع نہیں کرنا پڑے گی، جس دن لوگوں کی سوچ میں وسعت اور پختگی آ گئی اس دن حکمرانوں کو جیل بھرنے کی تحریک جیسی دھمکیاں دینے کی ضرورت قطعا پیش نہیں آئے گی۔ کیونکہ لوگ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہوئے آزاد ہوں گے، سیاسی قیادت باخبر ہو گی کہ اس کے کسی بھی غلط فیصلے کو نہیں مانا جائے گا، ووٹرز خود احتساب کریں گے اور اس سے کڑا احتساب کوئی ادارہ نہیں کر سکے گا۔ مولانا صاحب ملک کو اس آزادی کی ضرورت ہے۔ عوام کو اگر کسی نے قید کر رکھا ہے تو شعوری و فکری طور پر کمزور سیاسی قیادت ہے کاش آپ اس آزادی کے لیے کام کریں لیکن یہ آپ کبھی نہیں کریں گے کیونکہ سیاسی دکانیں بند ہو جائیں گی۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن کے فلسفہ غلامی پر سوالیہ نشان!!!!
May 11, 2024