سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کہتا کہ ملازمین پر ٹیکس لگائیں توبات کی جائے مزید ٹیکس نہیں لگا سکتے ، حکومت متبادل حل پیش کرے کہ پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس بڑھا سکتے ہیں، پراپرٹی پرصرف 8 بلین روپے ٹیکس اکٹھا ہونابڑی زیادتی ہے۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن نہیں بنائی کیونکہ نئی جماعت کو عوام میں متعارف کروانے میں وقت لگتا ہے، پھر یہ بھی تھا کہ الیکشن یکطرفہ ہوں گے، الیکشن ہوچکے ہیں، آئندہ الیکشن کو کچھ عرصہ رہ گیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں نئی جماعت کو لانا چاہیئے، نئی حکومت بن چکی ہے اب نئی پارٹی لانا چاہتے ہیں، چاہتے ہیں سیاسی انتشار کم ہو اور مسائل کے حل کیلئے نئی جماعت کام کرے، پاکستان کے اصل مسائل اور معیشت کی طرف توجہ نہیں دی جارہی،اقتدار کیلئے سیاست کی جاتی ہے لیکن ہم عوام کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہماری ایک اسلام آباد میں میٹنگ ہوئی تھی، جس میں سینئر سیاسی لیڈرشپ سکندر بوسن، سردار مہتاب عباسی،جاوید عباسی، ظہیر قادری،ودیگر نے بھی شرکت کی تھی ۔ اب اگلی میٹنگ باقی صوبوں میں بھی کریں گے۔پارٹی کے آئین پر بھی بات چیت ہورہی ہے، کوشش کریں گے کہ جون کے پہلے ہفتے میں نئی جماعت کا اعلان کردیں، جماعت کا نام بھی اسی ہفتے فائنل ہوجائے گا، الیکشن کمیشن کو بھی دیکھیں گے کہ وہ کس نام کی اجازت دیتا ہے۔ مفتاح نے کہا کہ اس وقت دو کروڑ 60لاکھ بچے سکولوں میں نہیں ہیں، کیا ان کے والدین بچوں کی تعلیم نہ ہونے سے مطمئن ہیں؟پاکستان میں 9کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے رہتے ہیں کیا وہ معاشی پالیسی سے مطمئن ہیں؟کیا میٹرک انٹربی اے کرنے والے بچے جو صبح سے شام تک کام کرتے ہیں، بجلی گیس کا بل نہیں دے سکتے کیا وہ اپنے حالات سے مطمئن ہیں؟اگر یونان جاتے کشتی ڈوبتی ہے تو ہمارے پاکستانی ڈوب جاتے ہیں، اس کا مطلب پاکستانی نوجوان بے چین ہیں، پی ٹی آئی 10سال سے کے پی کے میں ، ن لیگ عرصہ دراز سے پنجاب میں رہی اور 20سال سے مسلسل پیپلزپارٹی سندھ مین حکومت میں ہے کہ تعلیم صحت بہتر ہوگئی؟ انہوں نے کہا کہ میں گارنٹی نہیں دیتا کہ ہماری جماعت اقتدار میں بھی آئے گی، ہماری جماعت کا صدر چھ سال سے زیادہ نہیں رہ سکتا، دوسری مرتبہ سے زیادہ پارٹی الیکشن نہیں لڑسکتا، جب آئی پی پی ،پی ٹی آئی پارلیمنٹرین، پی پی پیٹریاٹ بنی تھی تب یہ سوال نہیں پوچھنا پڑا تھا، ن لیگ اور پی ٹی آئی سے متعلق بھی سوال نہیں پوچھنا پڑا تھا کہ کون کب اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تھی۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگیں گے نہ لڑائی لیں گے، ہم اپنی سیاست کریں گے سب کے ساتھ کام کریں گے لیکن نوکری کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے کیونکہ ہم نالائق ہیں، آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ درست نہیں ہوتا، اگر کہتا کہ آپ کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9.2 فیصد ہے جبکہ اخراجات 17 فیصد ہیں، مالی خسارہ بہت زیادہ ہے، نئے نوٹ چھاپنے پڑتے جس سے غربت بڑھتی ہے، آئی ایم ایف کی یہ بات ٹھیک ہے کہ خسارہ کم کریں۔ اگر آئی ایم ایف کہتا کہ ملازمین پر ٹیکس لگائیں تو حکومت بات کرے کہ مزید ٹیکس نہیں لگا سکتے ، پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس بڑھا سکتے ہیں، تاجروں اور دکانداروں پر ٹیکس لگا سکتے ہیں، حکومت کے پاس وقت ہے آئی ایم ایف کو ٹیکس اکٹھا کرنے کی متبادل تجویز پیش کرے۔اگر پاکستان میں پراپرٹی پرصرف 8بلین روپے ٹیکس اکٹھا ہورہا ہے تو بڑی زیادتی ہے۔