ہم کرسی نہ ملنے کی وجہ سے فرنٹ رو کے آگے نشیبی منڈھیر پر براجمان رہے، سامعین کی اتنی بڑی تعداد شاید ہی کبھی اس ہال میں دیکھی گئی ہو گویا لوگوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور نعروں کی گونج کا مقررین کے صوتی آہنگ سے مقابلہ ٹَھنَا ہوا تھا چنانچہ قاضی حسین احمد جب تقریر کے لئے روسٹرم پر آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ نعروں کی گونج میں ان کی آواز شاید سامعین تک نہیں پہنچ رہی تھی اور سامعین تو تھے بھی وہی جو نعرے ہی لگا رہے تھے تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ بھئی اگر نعرے اسی طرح جاری رکھنا ہیں تو میں اظہارِ خیال نہیں کرتا چنانچہ مودب اور منظم سامعین خاموش ہو گئے مگر قاضی صاحب سے پہلے خوشنود علی خان کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نعروں کے تسلسل سے لطف اندوز ہو رہا ہوں چنانچہ سامعین نے ان کی اس بات کو سماعت کیا کہ لاہور میں چینی 125 روپے فی کلو بِک رہی ہے اس وقت سامعین میں سے کسی نے اٹھ کر کہا کہ لاہور میں چینی 145 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے چنانچہ خوشنود علی خاں نے وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جب حالات وہ ہیں تو آپ اقتدار کو ٹھوکر مار کر میدان میں کیوں نہیں آ جاتے کیونکہ چونگی امرسدھو کے قریب گلی نمبر 54 میں ایک شخص بھوک اور افلاس کے باعث خودکشی بھی کر گیا ہے اور اس خبر سے میرا سینہ شق ہو گیا ہے، اصولاً آپ اس صورتِ حال کے ذمہ دار اور جواب دہ ہیں کیونکہ مسلمانوں سے خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے اپنے عہد اقتدار میں فرمایا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو میں اس کے لئے جواب دہ ہوں گا چنانچہ وزیر اعلیٰ نے خوشنود علی خاں کی بات کو ”سُنی اَن سُنی“ کرنے کے بجائے اس کو بڑی اہمیت دی اور اپنی تقریر میں اس کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں مَیں بطور خادمِ پنجاب ہر واقعہ کا ذمہ دار اور جواب دہ ہوں مگر خوشنود علی خان اور حقائق کو بھی ملحوظ رکھیں کہ وہ مَیں یعنی خادمِ پنجاب ہی تھا جس نے اس وقت پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں صبح و شام پہنچ کر ان کے متاثرین کے دکھ درد کا مداوا اور ان کی مدد کرتے رہنے کی اس وقت کوشش کی جب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری لندن اور پیرس کی سیر کر رہے تھے، پھر وزیر اعلیٰ نے سیلاب زدگان کی مدد کے باب میں اپنی خدمات کا بھرپور تذکرہ کیا اور غریب مگر ذہین طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کرنے کے لئے اپنے قائم کردہ ”انڈومنٹ فنڈ“ کا بھی ایک بار پھر ذکر کیا۔ انہوں نے چینی کی قیمتوں کے بارے میں واضح کیا کہ انہوں نے قبل از وقت وزیراعظم کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس سال چینی کی پیداوار کم ہونے کے باعث اتنے وزن میں چینی درآمد کرنا پڑے گی کہ۔ چینی کا ”ٹوٹا“ محسوس نہ ہوتا، اگر اس تجویز پر عمل ہو جاتا تو آج چینی زیادہ سے زیادہ 57 روپے فی کلو ہوتی، بہرحال وزیر اعلیٰ نے منقار زیر پَر پرندے کی طرح رہ جانے کے بجائے صورتِ حال کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قاضی حسین احمد اور دیگر مقررین کی طرح اپنی تقریر کے اختتامی مرحلے میں مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال کی ذات و خدمات و تعلیمات کو خراجِ عقیدت و ستائش بھی پیش کیا اور روح پرور انداز میں شاعرِ مشرق کی تعریف کی مگر ان کے لب و لہجہ اور تاثرات پر خوشنود علی خان کی تقریر کے اثرات مرتسم نظر آتے رہے۔
الحمرا ہال میں یومِ اقبالؒ کے انعقاد کا منظر
Nov 11, 2010
ہم کرسی نہ ملنے کی وجہ سے فرنٹ رو کے آگے نشیبی منڈھیر پر براجمان رہے، سامعین کی اتنی بڑی تعداد شاید ہی کبھی اس ہال میں دیکھی گئی ہو گویا لوگوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور نعروں کی گونج کا مقررین کے صوتی آہنگ سے مقابلہ ٹَھنَا ہوا تھا چنانچہ قاضی حسین احمد جب تقریر کے لئے روسٹرم پر آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ نعروں کی گونج میں ان کی آواز شاید سامعین تک نہیں پہنچ رہی تھی اور سامعین تو تھے بھی وہی جو نعرے ہی لگا رہے تھے تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ بھئی اگر نعرے اسی طرح جاری رکھنا ہیں تو میں اظہارِ خیال نہیں کرتا چنانچہ مودب اور منظم سامعین خاموش ہو گئے مگر قاضی صاحب سے پہلے خوشنود علی خان کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نعروں کے تسلسل سے لطف اندوز ہو رہا ہوں چنانچہ سامعین نے ان کی اس بات کو سماعت کیا کہ لاہور میں چینی 125 روپے فی کلو بِک رہی ہے اس وقت سامعین میں سے کسی نے اٹھ کر کہا کہ لاہور میں چینی 145 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے چنانچہ خوشنود علی خاں نے وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جب حالات وہ ہیں تو آپ اقتدار کو ٹھوکر مار کر میدان میں کیوں نہیں آ جاتے کیونکہ چونگی امرسدھو کے قریب گلی نمبر 54 میں ایک شخص بھوک اور افلاس کے باعث خودکشی بھی کر گیا ہے اور اس خبر سے میرا سینہ شق ہو گیا ہے، اصولاً آپ اس صورتِ حال کے ذمہ دار اور جواب دہ ہیں کیونکہ مسلمانوں سے خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے اپنے عہد اقتدار میں فرمایا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو میں اس کے لئے جواب دہ ہوں گا چنانچہ وزیر اعلیٰ نے خوشنود علی خاں کی بات کو ”سُنی اَن سُنی“ کرنے کے بجائے اس کو بڑی اہمیت دی اور اپنی تقریر میں اس کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں مَیں بطور خادمِ پنجاب ہر واقعہ کا ذمہ دار اور جواب دہ ہوں مگر خوشنود علی خان اور حقائق کو بھی ملحوظ رکھیں کہ وہ مَیں یعنی خادمِ پنجاب ہی تھا جس نے اس وقت پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں صبح و شام پہنچ کر ان کے متاثرین کے دکھ درد کا مداوا اور ان کی مدد کرتے رہنے کی اس وقت کوشش کی جب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری لندن اور پیرس کی سیر کر رہے تھے، پھر وزیر اعلیٰ نے سیلاب زدگان کی مدد کے باب میں اپنی خدمات کا بھرپور تذکرہ کیا اور غریب مگر ذہین طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کرنے کے لئے اپنے قائم کردہ ”انڈومنٹ فنڈ“ کا بھی ایک بار پھر ذکر کیا۔ انہوں نے چینی کی قیمتوں کے بارے میں واضح کیا کہ انہوں نے قبل از وقت وزیراعظم کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس سال چینی کی پیداوار کم ہونے کے باعث اتنے وزن میں چینی درآمد کرنا پڑے گی کہ۔ چینی کا ”ٹوٹا“ محسوس نہ ہوتا، اگر اس تجویز پر عمل ہو جاتا تو آج چینی زیادہ سے زیادہ 57 روپے فی کلو ہوتی، بہرحال وزیر اعلیٰ نے منقار زیر پَر پرندے کی طرح رہ جانے کے بجائے صورتِ حال کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قاضی حسین احمد اور دیگر مقررین کی طرح اپنی تقریر کے اختتامی مرحلے میں مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال کی ذات و خدمات و تعلیمات کو خراجِ عقیدت و ستائش بھی پیش کیا اور روح پرور انداز میں شاعرِ مشرق کی تعریف کی مگر ان کے لب و لہجہ اور تاثرات پر خوشنود علی خان کی تقریر کے اثرات مرتسم نظر آتے رہے۔