نوازخان میرانی ۔۔۔
یہ توطے شدہ بات ہے کہ ہمارا ہمسایہ ہمیں رسوا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور پھر بڑے زعم سے یہ اعلان کرتا ہے کہ رہنا تو ہم دونوں نے یہیں ہے۔ اندرا گاندھی کے وقت سے اس نے اپنی ننگی ثقافت کو جارحیت کی شکل میں اس طرح سے ہم پہ مسلط کر دیا ہے کہ جب تک ہم تہیہ نہ کر لیں تو اس وقت تک ہماری نسلیں اس آکاس بیل سے کسی صورت نہیںنکل سکتیں، ہمارے مذہبی تہواروں پہ عیدوں، شب راتوں، لیلة القدر اور رمضان شریف میں وہ ایسے ایسے پروگرام دکھانا شروع کر دیتا ہے کہ جو ابلیس لعین کا اصل چہرہ ہے وہ بھارت کی شکل میں ہمیں دکھائی دیتا ہے، ہم نے تو یہ سنا تھا کہ دوسروں کا چہرہ لال ہو تو اپنا چہرہ خود تھپڑ مار کر لال نہیں کرتے لیکن ہم نے اس محاورے کو مشرف کے دور سے غلط ہوتے بلکہ الٹا ہوتے خود دیکھا ہے کیونکہ بھارت والوں کو ننگا دیکھ کر دنیا کے سامنے ہم بھی ننگے ہو گئے ہیں۔اگر یقین نہ آئے اور میرے الفاظ پہ اخلاقی اعتراض نہیں تو پھر بھارت میں آجکل چلنے والا پروگرام ”بگ باس“ آپ خود دیکھ لیں جس میں عریانی میں نہ صرف ہم نے بھارت کو شکست دی ہے بلکہ چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ باس کا نام ہمیں ہمارے بے ضرر بلکہ فعال ہوتے ہوئے عملاً غیر فعال وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اٹھتے بیٹھتے یاد کرایا تھا کہ مشرف میرے باس ہیں چاہے جتنا مرضی ناروا سلوک کریں۔ باس کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی غیرت اور اَنا کو خرید سکتا ہے اور جس کے پاس دولت ڈالر کی شکل میں موجود ہو تو پھر وہ تو سب کچھ خرید سکتا ے۔ باس نے نہایت تذلیل سے جمالی صاحب کو نکالا، مگر مفاہمت کے نام پہ منافقت اور بزدلی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں ے پھر قوم کو بتایا کہ باس، باس ہوتا ہے اور مشرف میرا اب بھی باس ہی ہے۔ قوم پہ ان کا احسان ہوتا کہ اگر وہ یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ آخر کار باس کتنی حد تک جا سکتا ہے؟اب مشرف نے آخر کار جمالی کو نکالنے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ وہ دیر سے دفتر آتے تھے اور ہر وقت نمازیں پڑھتے رہتے تھے یعنی اس بدبخت کے نزدیک نمازیں پڑھنا، داڑھی رکھنا قابل مذمت فعل ہے اور نمازی شخص کو وہ چالیس دن تک بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ہر وقت نمازیں پڑھنے والا، دنیا جہاں کے باس کے آگے کس منہ سے سجدہ ریز ہوتا تھا، کیا اس ہستی کے علاوہ بھی نعوذ بااللہ کوئی اور باس ہوتا ہے؟جس قوم کا وزیر اعظم ایسا ہو کہ نمازیں اور سجدہ ریزی بھی اس کی اَنا کو سنبھالا نہ دے سکے، تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بگ باس میں حصہ لینے کیلئے بھارت جانے والی وینا ملک بھی نماز ادا کرنے اور سکرٹ پہن کر محو رقص ہونے کے بعد ہندوﺅں کے ساتھ بغل گیر ہو گئی اور پھر نجانے کیا ہوا کہ یہ منظر دیکھ کر ہم منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور بَنیا‘ وینا ملک کو ایک گانا سناتا ہے جو بقول اس کے کہ یہ اسی کی نذر کر رہا ہوں ’کہ تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو“ درصل یہ ساتھ دینے کا وعدہ اس نے نہیں کیا کہ جس نے اپنے ملک میں بھی اندھیر مچائی ہوئی ہے اور میڈیا کے سامنے نت نئے شوہر لے آتی ہے۔ میں بیگم نوازش علی کے بارے میں بالکل نرم گوشہ نہیں رکھتا لیکن وینا ملک کے اس ساتھی نے میرا دل جیت لیا ہے کیونکہ بھارت میں وینا کے مقابلے میں ان کی سرگرمیاں قابل اعتراض نہیں، دوسرا یہ کہ ہمارے حکمرانوں سے بہت زیادہ بہتر ظرف کا مالک ہے، کیونکہ وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میں خود ساختہ ہیجڑا ہوں، ویسے میں، مرد ہوں، ہمارے حاکم تو یہ بھی نہیں کہتے‘!! بلکہ امریکہ کے ایئرپورٹ پہ مادر زاد ننگا ہو کر بھی اپنی مردانگی کو ماننے پر زور دیتے ہیں!!!
یہ توطے شدہ بات ہے کہ ہمارا ہمسایہ ہمیں رسوا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور پھر بڑے زعم سے یہ اعلان کرتا ہے کہ رہنا تو ہم دونوں نے یہیں ہے۔ اندرا گاندھی کے وقت سے اس نے اپنی ننگی ثقافت کو جارحیت کی شکل میں اس طرح سے ہم پہ مسلط کر دیا ہے کہ جب تک ہم تہیہ نہ کر لیں تو اس وقت تک ہماری نسلیں اس آکاس بیل سے کسی صورت نہیںنکل سکتیں، ہمارے مذہبی تہواروں پہ عیدوں، شب راتوں، لیلة القدر اور رمضان شریف میں وہ ایسے ایسے پروگرام دکھانا شروع کر دیتا ہے کہ جو ابلیس لعین کا اصل چہرہ ہے وہ بھارت کی شکل میں ہمیں دکھائی دیتا ہے، ہم نے تو یہ سنا تھا کہ دوسروں کا چہرہ لال ہو تو اپنا چہرہ خود تھپڑ مار کر لال نہیں کرتے لیکن ہم نے اس محاورے کو مشرف کے دور سے غلط ہوتے بلکہ الٹا ہوتے خود دیکھا ہے کیونکہ بھارت والوں کو ننگا دیکھ کر دنیا کے سامنے ہم بھی ننگے ہو گئے ہیں۔اگر یقین نہ آئے اور میرے الفاظ پہ اخلاقی اعتراض نہیں تو پھر بھارت میں آجکل چلنے والا پروگرام ”بگ باس“ آپ خود دیکھ لیں جس میں عریانی میں نہ صرف ہم نے بھارت کو شکست دی ہے بلکہ چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ باس کا نام ہمیں ہمارے بے ضرر بلکہ فعال ہوتے ہوئے عملاً غیر فعال وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اٹھتے بیٹھتے یاد کرایا تھا کہ مشرف میرے باس ہیں چاہے جتنا مرضی ناروا سلوک کریں۔ باس کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی غیرت اور اَنا کو خرید سکتا ہے اور جس کے پاس دولت ڈالر کی شکل میں موجود ہو تو پھر وہ تو سب کچھ خرید سکتا ے۔ باس نے نہایت تذلیل سے جمالی صاحب کو نکالا، مگر مفاہمت کے نام پہ منافقت اور بزدلی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں ے پھر قوم کو بتایا کہ باس، باس ہوتا ہے اور مشرف میرا اب بھی باس ہی ہے۔ قوم پہ ان کا احسان ہوتا کہ اگر وہ یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ آخر کار باس کتنی حد تک جا سکتا ہے؟اب مشرف نے آخر کار جمالی کو نکالنے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ وہ دیر سے دفتر آتے تھے اور ہر وقت نمازیں پڑھتے رہتے تھے یعنی اس بدبخت کے نزدیک نمازیں پڑھنا، داڑھی رکھنا قابل مذمت فعل ہے اور نمازی شخص کو وہ چالیس دن تک بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ہر وقت نمازیں پڑھنے والا، دنیا جہاں کے باس کے آگے کس منہ سے سجدہ ریز ہوتا تھا، کیا اس ہستی کے علاوہ بھی نعوذ بااللہ کوئی اور باس ہوتا ہے؟جس قوم کا وزیر اعظم ایسا ہو کہ نمازیں اور سجدہ ریزی بھی اس کی اَنا کو سنبھالا نہ دے سکے، تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بگ باس میں حصہ لینے کیلئے بھارت جانے والی وینا ملک بھی نماز ادا کرنے اور سکرٹ پہن کر محو رقص ہونے کے بعد ہندوﺅں کے ساتھ بغل گیر ہو گئی اور پھر نجانے کیا ہوا کہ یہ منظر دیکھ کر ہم منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور بَنیا‘ وینا ملک کو ایک گانا سناتا ہے جو بقول اس کے کہ یہ اسی کی نذر کر رہا ہوں ’کہ تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو“ درصل یہ ساتھ دینے کا وعدہ اس نے نہیں کیا کہ جس نے اپنے ملک میں بھی اندھیر مچائی ہوئی ہے اور میڈیا کے سامنے نت نئے شوہر لے آتی ہے۔ میں بیگم نوازش علی کے بارے میں بالکل نرم گوشہ نہیں رکھتا لیکن وینا ملک کے اس ساتھی نے میرا دل جیت لیا ہے کیونکہ بھارت میں وینا کے مقابلے میں ان کی سرگرمیاں قابل اعتراض نہیں، دوسرا یہ کہ ہمارے حکمرانوں سے بہت زیادہ بہتر ظرف کا مالک ہے، کیونکہ وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میں خود ساختہ ہیجڑا ہوں، ویسے میں، مرد ہوں، ہمارے حاکم تو یہ بھی نہیں کہتے‘!! بلکہ امریکہ کے ایئرپورٹ پہ مادر زاد ننگا ہو کر بھی اپنی مردانگی کو ماننے پر زور دیتے ہیں!!!