لاہور (فرخ بصیر سے) سندھ میں جو کچھ ہوا غیر آئینی اور 18 ویں ترمیم کے آرٹیکل 140-A کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام کو لپیٹ کر حکمرانوں نے عوام کو ایک مرتبہ پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور اور جمہوریت کی بجائے نوکر شاہی کو مضبوط بنا دیا ہے۔ کمشنری نظام کی بحالی سے عوام سرکاری دفاتر کے درمیان فٹ بال بن کر رہ جائینگے، پہلے منتخب نمائندے عوام کو جوابدہ تھے مگر نوکر شاہی کو کون جوابدہ بنائیگا؟ ان خیالات کا اظہار سابق ضلعی، نائب اور ٹاﺅن ناظمین نے سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کے بعد نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ قومی تعمیر نو بیورو کے سابق سربراہ اور جیوے مقامی حکومتیں تحریک کے چیئرمین دانیال عزیز نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت تمام صوبوں کو پابند بنایا گیا تھا کہ صوبے تمام مالیاتی، انتظامی اور سیاسی اختیارات اور ذمہ داریاں مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو تفویض کرینگے کیونکہ ایڈمنسٹریٹرز منتخب نمائندے نہیں اور آرٹیکل کی شرائط میں یہ بات شامل ہے کہ ایڈمنسٹریٹرز مقرر نہیں کئے جائینگے۔ مقامی حکومتیں جمہوری ہونگی۔ موجودہ حکمران جمہوریت پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں جس کا عدلیہ کو نوٹس لینا چاہئے۔ اپریل 2009ءمیں سپریم کورٹ نے ہر ضلع میں پبلک سیفٹی کمشن بنانے کی ہدایت کی تھی جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ سابق میئر اور ناظم داتا گنج بخش ٹاﺅن خواجہ احمد حسان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں 79ءکا کمشنری نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر 79ءکا کمشنری نظام بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی 2008ءکے الیکشن کے بعد ہی نظام دوبارہ نافذ کرنا چاہتی تھی مگر سندھ میں جو نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اسکے نتیجے میں کنیفوژن بڑھے گا اور اس کا اثر نظام پر پڑیگا۔ لاہور کے سابق ضلع نائب ناظم فاروق امجد میر نے کہا کہ 79ءکے بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندے نوکر شاہی کے ماتحت ہوتے تھے اور میئر کے پاس کردہ بجٹ میں ڈی سی ترامیم یا تحریف کر سکتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں ضلعی ناظم ڈی سی او اور ای ڈی اوز کا انچارج اور ان کی سالانہ کارکردگی رپورٹ لکھتا تھا لہٰذا نوکر شاہی نہ صرف ضلعی اور ٹاﺅن ناظم کے احکامات ماننے کی پابند ہوتی تھی بلکہ انہیں یہ خدشہ بھی ہوتا تھا کہ اگر وہ ناظمین سے تعاون نہیں کرینگے تو ان کی اے سی آر خراب ہو جائیگی۔ فاروق امجد میر نے کہا کہ منتخب نمائندے اسمبلی میں پہنچنے کے بعد حکومت کی ہر بات نہیں مانتے جس کے پیش نظر سندھ میں کمشنری نظام کو بحال کیا گیا ہے۔ سابق نائب ناظم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور ادریس حنیف نے کہا کہ پاکستان میں بلدیات کو تجربہ گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ سٹی گورنمنٹ نظام سے نہ صرف عوام خوش تھے بلکہ ان کی پہنچ اپنے منتخب کردہ مقامی نمائندوں تک بھی تھی۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں بعض ترامیم لاکر بہتری لائی جا سکتی ہے مگر اس کی بجائے اداروں کو سرے سے ہی ختم کر دیا گیا۔