مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ فوج کی چھتری کے بغیر پہلی بار حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ حکومت انتخابات کے تجسس کو ختم کرے اور انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دے۔ حکومت کی مدت 18 مارچ ہے تو اس کا بھی وقت دیا جائے۔
18 فروری 2008ءکو ہونیوالے انتخابات میں عوام نے کسی ایک پارٹی پر مکمل اعتماد کے بجائے منقسم مینڈیٹ دیا‘ جس پر قوم کی طرف سے تحفظات اس لئے نہیں تھے کہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنیوالی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین مفاہمت اور یگانگت پائی جاتی تھی۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پیپلز پارٹی نے مل کر مخلوط حکومت بنائی لیکن بوجوہ مرکز میں مخلوط حکومت کی عمر محض چند ماہ پر محیط رہی البتہ پنجاب حکومت کے ساتھ پیپلز پارٹی کے وزراءتین سال چمٹے رہے۔ بالآخر ان کو بھی پنجاب حکومت سے الگ ہوتے ہی بنی۔ اسکے بعد مرکزی اور پنجاب حکومت کے مابین کشیدگی میں کافی اضافہ ہو گیا لیکن منقسم مینڈیٹ کے باعث ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ دیکھنے میں آیا۔ مرکزی حکومت نے گورنر راج نافذ کرکے پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش ضرور کی مگر ناکامی کے بعد مزید چھیڑچھاڑ سے گریز کیا۔ پی پی اور (ن) لیگ کی قیادتوں کے سخت بیانات اپنی جگہ لیکن دونوں نے انتہائی سطح پر جانے سے احتراز کیا جس کے باعث جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہے۔ مخدوش حالات‘ منقسم مینڈیٹ کے باوجود بغیر فوجی چھتری کے حکومت کا اپنی آئینی مدت پوری کرنا بلاشبہ جمہوریت کی کامیابی اور اس کا کریڈٹ یکساں طور پر سیاست دانوں‘ عدلیہ‘ فوج اور میڈیا کو جاتا ہے۔
میاں نواز شریف کی طرح وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی کہا ہے کہ پہلی جمہوری حکومت اپنی میعاد پوری کر رہی ہے۔ انتخابات کے بغیر اصل قیادت سامنے لانے کا کوئی اور فارمولا یا نسخہ نہیں ہے۔ وزیراعظم راجہ نے درست کہا کہ اصل قیادت سامنے لانے کیلئے انتخابات ناگزیر ہیں لیکن ہر پاکستانی ایک ہی سوال تواتر سے کر رہا ہے کہ الیکشن کب ہونگے؟
مشرف کی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ (ق) کی نیم جمہوری حکومت سے عوام نے ووٹ کی طاقت سے چھٹکارا حاصل کیا تو عوام کو سلطانی¿ جمہور سے بڑی توقعات تھیں‘ انکی راہ میں ایوان صدر میں جنرل (ر) مشرف کی موجودگی ایک رکاوٹ تھی‘ جس سے ستمبر 2008ءمیں سیاست دانوں نے خلاصی حاصل کرلی‘ اسکے باوجود بھی عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ صورتحال آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی ہو گئی۔ جمہوریت کے نام پر آمرانہ رویے دیکھنے میں آتے رہے‘ کوئی کام کی داخلہ پالیسی نظر آئی‘ نہ خارجہ‘ معیشت زوال پذیر ہوئی‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ اقرباپروری‘ رشوت ستانی اور لاقانونیت نے عروج حاصل کیا۔ اعلیٰ سطح پر کرپشن کے آئے دن سکینڈل سامنے آتے رہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کی توہین و تضحیک ہوتی رہی‘ بجلی و گیس کا بحران انتہاﺅں کو چھو رہا ہے۔ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے ادارے نقصان میں تو تھے ہی لیکن کرپٹ مافیا نے انہیں برباد کر دیا۔ دہشت گردی ہر پاکستانی کیلئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ گورننس کا ذکر صرف کتابوں تک محدود رہ گیا‘ عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ لوٹ مار کے باعث حکمرانوں کی عوام میں کوئی ساکھ نہیں رہی‘ وہ سیاسی شہید بننے کی کوشش کرتے رہے لیکن جمہوریت کو ڈی ریل کرنے میں کسی ادارے نے نہ صرف کوشش نہیں کی بلکہ جن کی طرف سے مہم جوئی کا خدشہ تھا‘ انہوں نے جیسی بھی جمہوریت تھی‘ اس کو سہارا دینے کا وعدہ پورا کیا۔ حکمران سیاسی شہید بننے میں مایوسی کے بعد اب بروقت الیکشن کرانے کے بجائے مخدوش حالات کا بہانہ بنا کر انتخابات کو معرضِ التواءمیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اب تک انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان نہ کرنا بھی اسی تاثر کو تقویت دیتا ہے۔
ہم مغربی ممالک میں رائج جمہوریت کی پیروی کرتے ہیں‘ ان ممالک میں انتخابات کی ایک تاریخ مقرر ہے‘ امریکہ میں 6نومبر کو صدارتی الیکشن ہوئے‘ چار سال بعد 2016ءکو بھی نومبر کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہونگے۔ سینڈی طوفان سے پانچ کروڑ امریکی متاثر ہوئے‘ یہ طوفان صدارتی الیکشن سے ہفتہ بھر قبل آیا۔ ایسی قدرتی آفت میں انتخابات ملتوی کرنے کی امریکی قانون میں گنجائش موجود ہے لیکن وہاں کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے ایسی کوئی سوچ اور بیان دیکھنے میں نہیں آیا۔ الیکشن کے انعقاد کی ایک تاریخ مقرر ہو تو سیاسی جماعتیں اسکے مطابق اپنی انتخابی مہم ترتیب دیتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو انتظامات میں آسانی رہتی ہے‘ سیکورٹی کا بندوبست کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔ دو تین ماہ قبل اعلان ہونے سے ہر طرف افراتفری کا منظر ہوتا ہے۔ کیا ہماری جمہوریت ابھی اتنی میچور نہیں ہوئی کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات کے انعقاد کی ایک تاریخ مقرر کردی جائے؟ کیا ہمارے پارلیمنٹیرین کی جانب سے اب بھی کسی طرف سے جمہوریت کیخلاف مہم جوئی کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے؟
معاملات آمریت سے نیم جمہوریت پھر جمہوریت کی طرف آئے‘ اب جمہوریت ایک راست سمت میں چل پڑی ہے۔ سیاست دانوں کو اپنے رویے بھی خالصتاً جمہوری بنانا ہونگے۔ 18 فروری 2008ءکو عام انتخابات ہوئے تھے‘ اصولی طور پر اب بھی 18 فروری کے لگ بھگ الیکشن ہونے چاہئیں۔ آئینی طور پر انتخابات سے 60 روز قبل نگران حکومت بن جانی چاہیے جس میں چار پانچ ہفتے باقی ہیں۔ اس دوران نگران حکومت پر اتفاق رائے بھی قائم کرنا ہے۔ افسوس کہ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوتاہی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اطلاعات کائرہ کہتے ہیں نگران حکومت کی مشاورت کی جلدی نہیں۔ ایسے بیان کو جمہوری رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حکومتی مثبت یا منفی کارکردگی اپنی جگہ‘ اس نے میاں منظور وٹو پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو پنجاب فتح کرنے کیلئے مقرر کیا ہے۔ وٹو صاحب فرماتے ہیں کہ نگران حکومت آتے ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی میرے پاس آجائینگے۔ مرکزی حکومت اپنے ”شیرِپنجاب“ کی صلاحیتوں پر اعتماد اور انکے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے بھی فوری طور پر نگران حکومت قائم کر دے۔ حکومت کو مزید ایک لمحہ ضائع کئے بغیر آئندہ الیکشن کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ سیاست دان مخمصے اور ابہام سے نکل کر انتخابی مہم کی طرف توجہ دیں۔ الیکشن کمشن منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کی تیاری اور سیکورٹی کے مکمل انتظامات کر سکے۔ امریکی انتخابات سے ایک بار پھر اچھی مثال سامنے آئی ہے کہ ہارنے والے امیدوار نے اپنی شکست کھلے دل سے تسلیم کی اور خندہ پیشانی سے جیتنے والے کو مبارکباد دی اور وطن کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اوباما نے بھی تکبر کا اظہار کرنے کے بجائے مٹ رومنی کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم ظاہر کیا۔ ہمارے سیاست دان بھی ایک دوسرے کےلئے ایسے جذبات کا اظہار کریں تو یہ بھی جمہوریت کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔
We should learn to be a good loser.
انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے حکمران اپنی نیک نیتی کا اظہار انتخابات کے انعقاد کا فوری اعلان کرکے کریں۔ میاں نواز شریف کے بقول اگر وہ 18 مارچ کو الیکشن کرانا چاہتے ہیں تو اس کا اعلان بھی کرایا جائے۔