لاہور + اسلام آباد (خصوصی رپورٹر + ایجنسیاں) وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اصغر خان کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی انتخابی مہم کے لئے استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے، کائرہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کراتے ہوئے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں رکوائیں۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت تمام عدالتی فیصلوں کا دل و جان سے احترام کرتی ہے اس کا اعادہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ قمر زمان کائرہ کے بیان پر ردعمل میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو سکتیں لیکن زرداری ایوان صدر میں ابھی تک سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ کر عدالتی فیصلے کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہے ہیں۔ الزامات کی سیاست پیپلز پارٹی کا پرانا وطیرہ ہے۔ پنجاب کے عوام کے حقوق کی بات کرنا کوئی جرم نہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کارڈ استعمال کرنے کی سیاست کی جس میں اب اسے بری طرح ناکامی ہو گی۔ شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کو عوامی تائید اور پذیرائی حاصل ہے، آئندہ انتخابات میں عوام مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دے کر اس سے اپنی پختہ وابستگی کا اظہار کریں گے۔ ہر الیکشن میں مظلوم بن کر پیپلز پارٹی عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ گذشتہ ساڑھے چار سال میں ایوان صدر اور وفاقی حکومت نے اس مرتبہ لوٹ مار کا جو بازار گرم رکھا ہے اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لئے انتخابات میں کوئی ہمدردی حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ عدالتی فیصلوں کو ڈوبتے کے لئے تنکے کا سہارا سمجھنے کی بجائے کائرہ اور ان کی جماعت اپنی کارکردگی کی بات کرے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ اپنے ردعمل میں اپنے ردعمل میں مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے نواز شریف کیلئے مشرف والی زبان استعمال کی، ڈوبتی کشتی کے سوار مخالفین پر الزامات عائد کر کے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں، حکمرانوں کو قومی اداروں کے دیوالیہ ہونے کا جواب دینا پڑے گا، وزیر اطلاعات دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے عوام کو اپنی حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کریں، ہمیں طالبان کی حمایت کا طعنہ نہ دیا جائے پیپلز پارٹی کالعدم تنظیموں کی طرح الیکشن کمشن کے پاس ابھی تک رجسٹرڈ جماعت نہیں، ایٹمی پاکستان کو بچانے کےلئے موجودہ حکومت کی رخصتی ناگزیر ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہاکہ قمرزمان نے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کئے، اصغر خان کیس کا فیصلہ تاریخی ہے ایجنسیوں کے کردار پر معترض رہے ہیں‘ 20ویں ترمیم کے ذریعے آزاد الیکشن کمشن قائم کرایا ہے‘ نوازشریف نے یونس حبیب کو نوکری سے نکالا یونس حبیب کو لائسنس پی پی نے دیا تھا، اسی پی پی کو 25 کروڑ روپے دینے کا اعتراف کیا۔ صوبہ سرحد میں صابر شاہ کی حکومت گرانے کےلئے پی پی کو 11 کروڑ دئیے گئے۔ جنرل اسد درانی یونیفارم میں پی پی پی کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ شکست خوردہ جماعت کے ترجمان متوقع شکست کے پیش نظر پہلے ہی پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل دوسروں پر الزامات لگانے سے محفوظ نہیں بنایا جا سکتا ہے لوگ ووٹ ڈالتے وقت پی پی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو مدنظر رکھیں گے۔ کیا حکومت نے مہنگائی‘ کرپشن اور توانائی بحران کا خاتمہ کیا‘ 2.9 فیصد گروتھ ریٹ ناکافی ہے۔ قرضوں کا حجم ساڑھے پانچ کھرب سے 13 کھرب تک کیسے پہنچا اس بات کا جواب دینا پڑے گا۔ لوگ پوچھیں گے کہ کتنے ایئرپورٹ قائم ہوئے‘ کتنی موٹرویز تعمیر ہوئیں‘ ڈرون حملواں میں کیوں اضافہ ہوا‘ انڈسٹری بند ہونے کا بھی حساب دینا پڑے گا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘ ملائشیا منتقل ہو گئیں‘ بلوچستان میں آج بھی مشرف کی پالیسیاں جاری ہیں۔ قومی اداروں کے دیوالیہ ہونے کا جواب حکمرانوں کو دینا پڑے گا۔ الیکشن کمشن میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین رجسٹرڈ ہے۔ صدر زرداری اپنی پارٹی کے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں عوام پی پی پی کی ضمانتیں ضبط کرا دیں گے۔