’’ہمیں ڈرائے وہ تاریکیوں سے ‘‘

Nov 11, 2013

مسرت قیوم

بھارت مریخ پر خلائی مشن بھیج کر ایشاء میں پہلا ملک بن گیا۔  15 ماہ میں تیار ہونے والے اِس پروجیکٹ پر ’’7کروڑ 30 لاکھ‘‘ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ ایک ایسی حکومت جو ’’روشن انڈیا‘‘ کی فرضی نمائش اور لیپا پوتی میں مصروف ہے۔ وہ اپنے عوام کو صاف پانی اور روٹی جیسی بنیادی ضروریات بھی مکمل طور پر پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔بنیادی و شہری سہولتوں سے محروم آبادی کا ایک بڑا حصہ انڈین حکومت کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے تئیں دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عوام کو پیٹ بھر کے کھانا فراہم کرنے کا معاملہ میں ’’63 ویں‘‘ نمبر پر آتی ہے۔ کیا یہ تماشا نہیں کہ دوسروں کو امن کا درس دینے والا خود اپنے ملک کے 21 کروڑ سے زائد افراد کو روٹی جیسی بنیادی اور اہم ضرورت بھی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ایک اور خبر ملا خطہ فرمائیں۔
’’بھارتی گجرات میں‘‘ میں بلڈ بینک انتظامیہ نے لوگوں کو خون دینے کے  بدلہ میں ایک کلو پیاز اور ایک لٹر پٹرول دینے کا اعلان کیا تو ہزاروں لوگ اُمڈ پرے۔ یہ جنگی ہتھیاروں سے اپنے شہروں کو بھرنے والا ملک عوام کی مالی بدحالی کا محض ایک معمولی سا مظاہرہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ فرمانا بجا ہے کہ ’’پاکستان و انڈیا‘‘ مقابلے بازی کی پالیسی ترک کر دیں کیونکہ باہم بداعتمادی دونوں ممالک کے وسائل کو بھاری دفاعی اخراجات کی صورت چاٹ رہی ہے۔ جبکہ انڈین‘ پاکستان‘ چین دشمنی  میں سرحدوں کے ساتھ اربوں روپے مالیت کی ’’سٹریٹجک ریلوے لائینز‘‘ بنانے کا فیصلہ کر لے۔خطے میں واحد سُپر پاور بننے کا خواب دیکھنے  والا انڈیا‘ مہلک ہتھیاروں کی خریداری پر سالانہ 43 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے اور بھول رہا ہے کہ اُس ملک میں بسنے والے انتہائی غریب افراد کی تعداد ’’50 کروڑ‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔  یہ لوگ ’’ایک ڈالر‘‘ روزانہ سے بھی کم پر زندگی کی سانسیں بحال کرتے نظر آتے ہیں۔ دونوں اطراف کی قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ سرحدوں پر امن عوام بلکہ افواج کے بھی حق میں ہے مگر اِس کے باوجود مفاداتی کاروبار انھیں کسی بھی طرح امن کی کھڑکی کھولنے نہیں دے رہے۔ 3 جنگوں کا بوجھ اٹھائے تلخ ماضی رکھنے والے دونوں ملک اپنے وسائل کا ایک خطیر حصہ جنگی جنون پر خرچ کر رہے ہیں۔ 65 سالہ دشمنی کی ڈور میں بندے ہوئے عوام کو کشمیر جیسا 65 سالہ تنازع ’’565 ارب‘‘ ڈالرز کی لاگت میں پڑا ہے۔ سرحد پار الیکشن کا موسم چل رہا ہے۔ انتخابی دنگل میں انڈین قیادت اپنے گندے کپڑے سر عام دھو رہی ہے۔ یہ الیکشن بھارت میں نسلی و لسانی تقسیم کو مزید گہرا کر دے گا۔ صوبائی تعصبات بڑھیں۔ علیحدگی کی تحریکیں مزید زور پکڑ جائیں گی۔ کیونکہ معاشرے میں واضح طور پر غریب‘ امیر کی خلیج 90 ڈگری تک پہنچ چکی ہے دُنیا کے سامنے ’’انڈیا‘‘ کا نقشہ ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آرہا ہے جو بین الاقوامی برادری کو جھوٹے  حقائق میں اُلجھا کر خود اپنے ملک کے اکثریتی علاقوں میں ظلم و تشدد کی ایک نہ ختم ہونے والی دلخراش فلم بنانے میں مصروف ہے۔ انڈین انسانی حقوق کی تنظیموں کے مشترکہ فورم ’’وائس آف وکٹم ‘‘ نے بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 130 افراد کی 2 مزید اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ تمام افراد بھارتی فورسز نے فرضی جھڑپوں میں مارے تھے۔ انڈین کو مان لینا چاہئے کہ جنگ کی تیاری پر بھی بھاری لاگت آتی ہے مگر جنگجو  ماحول پیدا کرنے کی لاگت پہلی تیاری سے دوگنا سے بھی زائد بڑھ جاتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں سب سے بڑی خرابی اگر وہاں کی قیادت کا غیر ذمہ دارانہ رویپ اور روایتی الزام تراشی کی سیاست پر حکومت بنانا ہے تو ’’انڈین میڈیا‘‘ بھی 99% حالات میں کشیدگی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ 
گلوبل پاور بننے کا خواہش مند اور اس ضمن میں کوششیں کرتا ہوا۔۔ ’’انڈیا‘‘ پاکستان میں دہشت گردی کے مراکز اور وفاق مخالف قوتوں‘ افراد کا ایک محفوظ ٹھکانہ ہے۔ الٹا وہ  پاکستان پر سرحد پار دخل اندازی کا الزام تھوپتا رہتا ہے۔ انتہا پسندوں کو جب تک دونوں ممالک کنٹرول نہیں کریں گے تب تک سرحدی فائرنگ‘ فوجی بجٹ اور غیر ملکی قرضے بھی برھتے جائیں گے۔ مزید براں سرحد پار لوگوں امن و آشتی کے مقابلے میں سنگین الزام بازی کے کھیل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ایسا کرنا ہر انڈین حکومت‘ سیاستدان کی داخلی سیاسی ضرورت بن چکا ہے۔ وہ لوگوں سے ووٹ ’’پاکستان دشمنی‘‘ پر لیتے ہیں۔ یہ ’’21ویں‘‘ صدی ہے۔ اب بھارت کو اپنے داخلی مسائل کرنے کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے۔ انڈیا۔ ہمارے حصے کا پانی واگزار کر دے۔ ناجائز ڈیمز کی تعمیر روک دے اور بنیادی تنازعہ کشمیر پر ناجائز قبضہ ختم کر دے تو پھر تجارت تو کیا آرپار باہم کاروباری منصوبے بھی بننا شروع ہو جائیں گے۔ تاجر برادری مل جائے تو بے روزگاری‘ معاشی و سیاسی استحصال بہت چھوٹے مسائل ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ امن کا قیام ہے مگر اِس کا حصول کیسے ہو؟؟ اِس سوال کا زیادہ جامع جواب یہ ہے کہ ’’انڈین حکومت‘‘ اپنے دل کے بند کواڑ کھول دے تو آزادانہ تجارت اور آمدورفت بھی یقینی ہے بس ’’انڈین سیاست‘‘ حقائق کو محسوس نہ کرے بلکہ سمجھ کر آگے بڑے۔ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے۔۔ مان لے کہ اِس جدید دور میں لوگوں کو جبراً غلام نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی کسی ہمسائے کو دھمکیوں‘ دبائو سے ڈرایا جانا ممکن ہے۔

مزیدخبریں