علامہ اقبال کے ”مرغ چمن“ ڈاکٹر مجید نظامی کی نعرہ بازی

علامہ اقبال کے ”مرغ چمن“ ڈاکٹر مجید نظامی کی نعرہ بازی

دو انکم ٹیکس اکا¶نٹنٹ صاحبان اپنے تیسرے ساتھی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے لیکن انہیں اپنے دوست کے نام کا پتھر ہی نہیں مل رہا تھا.... آخر ایک دوست نے کہا کہ ہم لوگ بے نامی کھاتے اور جائیدادیں دکھانے کے عادی ہیں‘ اس کی بیوی کے نام کا پتھر ڈھونڈو .... لیکن دنیا بھر میں عظیم مقاصد کے ساتھ جینے والے نامور اور عظیم لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا.... کیونکہ ایک تو ان کا پرشکوہ مقام آخر ان کی خدمات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے اور دوسرا قوم کے ہر فرد کا دل ان کے خصوصاً مخصوص دنوں پر ان کے حضور سلامی پیش کرکے تجدید عہد وفا کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کے دل بھی علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی عظمتوں کے معترف ہیں اور ان کی محبتوں میں دھڑکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے انگریزوں اور ہندو¶ں سے آزادی حاصل کرکے یہ ملک بنانے کے لئے قائداعظمؒ کو وکیل کیا تھا.... اور علامہ اقبالؒ کا اعتماد غلط نہیں تھا.... وکیل نے جان کی بازی لگا کر بھی یہ مقدمہ جیت کر دکھایا‘ یہ دونوں شخصیات ایک ہی مقصد میں پروئی ہوئی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے جب اس عظیم مقاصد کی ڈور قائداعظمؒ کو تھمائی تو تکمیل کا سفر آگے کی طرف چل پڑا.... پاکستان بننے کے بعد یہ سفر ڈاکٹر مجید نظامی آگے بڑھا رہے ہیں.... ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ ایک شخصیت علامہ اقبالؒ یا قائداعظمؒ جیسی موجود ہوتی تو یہ ایک اور ایک گیارہ ہوتے اور دشمنوں کے چھکے چھڑا دیتے کیونکہ ڈاکٹر مجید نظامی ایک ہو کربھی کتنوں پر بھاری ہیں.... امریکہ اور بھارت دونوں ان کے نام سے اچھی طرح آشنا ہیں.... میں پہلی مرتبہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے منعقدہ کانفرنس میں لاہور چند برس قبل شامل ہوئی تھی جب میں پہنچی تو ڈاکٹر مجید نظامی اپنے چند پرجوش دوستوں کے (جن میں جسٹس (ر) میاں آفتاب خان) ہمراہ اس مقام کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں پرچم کشائی ادا ہونا تھی اور پھر ڈھولک کی تھاپ پر سبز پرچم لہرایا گیا میں نے ڈھولک کی یہ تھاپ بڑے عرصے کے بعد سنی تھی اور اس تھاپ کے ساتھ ساتھ میرا دل دھڑک رہا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہونے والی مفکر پاکستان کے لئے سجائی گئی تقریب میں کل بھی لوگوں کے دل دھڑکا دئیے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے دلوں کو گرمانے اور دھڑکانے کے لئے ”نعرہ تکبیر اﷲ اکبر“ اور ”نعرہ رسالت یا رسول اﷲ“ کے نعرے خود لگائے.... تین بار بائی پاس کے نازک مرحلے سے گزرنے والا ڈاکٹر مجید نظامی کا دل اس قوت ایمانی سے بھرپور اور جواں ہے جو علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے اندر بھی موجود تھی۔ علامہ اقبال کا شعر ہے
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
ڈاکٹر مجید نظامی علامہ اقبالؒ کے وہی ”مرغ چمن“ ہیں کہ جو اس خاموشی اور سکوت میں اذان دے رہا ہے اور سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے.... ڈاکٹر مجید نظامی نعرے لگواتے رہتے ہیں اورڈھول کا نقارہ بجواتے رہتے ہیں اگر پاکستان کے سارے لوگ ان نعروں کے ساتھ نعرے لگانے لگیں تو اتنا شور مچ جائے گا کہ دنیا کو ہماری آواز سننا پڑے گی۔ ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ ان نعروں میں ڈاکٹر جاوید اقبال بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی ان سے ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے عقیدت مند ہونے کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی محبت ہی معنی خیز ہوتی ہے.... جیسے ان کی طرف سے عطا کئے گئے خطابات معنی خیز ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے سابق صدر آصف علی زرداری کو جیل کاٹنے کی جرات پر ”مرد حر“ کا خطاب دیا تھا۔ جس پر بعد میں بحث مباحثہ بھی ہوتا رہا تھا.... اور خضر راہ کی حکمت موسیٰ کو دیر سے سمجھ آتی ہے۔ دراصل مجید نظامی کی گہری باتیں حکمت سے خالی نہیں ہوتیں۔ وہ آصف علی زرداری کو یہ خطاب دے کر ہمیشہ کے لئے سیدھے راستے پر چلانا چاہتے تھے۔ کل زرداری صاحب نے بھی حضرت علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش پر پیغام دیا تھا اور کہا تھا کہ کسی کو بھی مذہب کے نام پر خود ساختہ نظریات ٹھونسنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہی بات امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہب اور نظریاتی پختگی کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے۔ سابق صدر زرداری نے معلوم نہیں کتنی فارسی پڑھی ہے اور علامہ اقبالؒ کے پیغام کو کتنی گہرائی کے ساتھ سمجھا ہے۔ اب تو انگریزی سکالرز کو پڑھا جاتا ہے اور عربی اور فارسی سے دور کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اقبالؒ و قائدؒ جیسی بڑی شخصیات کے دنوں کو مناتے وقت پیغام دے کر اپنے مسائل بھی حل کئے جاتے ہیں۔
عطر فروشوں کی بستی میں بیٹھیں تو خوشبو اپنے لباس میں بھی آ جایا کرتی ہے۔ سابق صدر زرداری اگر علامہ اقبالؒ کے افکار کو سمجھ لیتے تو اور انداز کے حکمراں ہوتے کیونکہ اقبالؒ و قائدؒ کے نام کے ساتھ لفظ ”ذاتی مفادات“ کو جوڑنے کا نہ تو سوچا جاسکتا ہے اور نہ جرات کی جاسکتی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں نے پہچان کروائی ہے وہ نام کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں اور اچھے القابات اور نام کردار کی عظمت سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال بھی خوش قسمت ہیں کہ جو اپنے عظیم والد گرامی کا ورثہ سنبھال سکتے تھے.... اور آج اپنے والد کے یوم پیدائش پر وہ جذبہ دکھا سکتے تھے کہ جو ڈاکٹر مجید نظامی نے دکھایا۔ جس عظیم شخص کے سامنے قوموں کی تقدیر کا سوال ہو وہ عام آدمی سے مختلف ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے اپنی ذاتی خواہشات کی قربانیاں دے کر ہمیں یہ مملکت حاصل کرنے کے قابل بنایا تھا ۔پرانے زمانے میں ننھے منے شہزادوں کو گلی محلے کے لڑکوں سے ہٹ کر چھوٹی عمرسے ہی عربی‘ فارسی‘ گھڑ سواری اور تلوار چلانے کی تربیت دی جاتی تھی اور علامہ اقبالؒ ڈاکٹر جاوید اقبال کو ایسا ہی شہزادہ سمجھتے تھے۔ آج قوم جس مزار کی مٹی کو ہی آنکھوں کا سرمہ بنانا پسند کرتی ہے وہ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا مزار ہے اور اس بات کو ڈاکٹر مجیدنظامی اچھی طرح سمجھتے ہیں اسی لئے اس وقت وہ علامہ اقبالؒ کے واحد ”مرغ چمن“ ہیں کہ جو ہمیں زندگی میں کچھ کرنے پر اکسا رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن