برلن+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ وقائع نگار خصوصی+ ) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات اور عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، پاکستان خطے میں معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ جرمنی پاکستان کا چوتھا بڑا شراکت دار ہے، پاکستان کو خطے میں تجارت کا گیٹ وے بنانا چاہتے ہیں، ترقی کیلئے تمام ممالک کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں، توانائی بنیادی ڈھانچے اور دیگر شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری چاہتے ہیں، پاکستان جرمن بزنس فورم کو چیمبر آف کامرس میں بدلنا چاہتا ہے، پاک جرمن بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دیوار برلن گرانے کی 25 ویں سالگرہ پر جرمن عوام کو مبارکباد دی اور کہا کہ پاکستان اور جرمنی کے درمیان پہلا معاہدہ 1959ءمیں ہوا تھا۔ یہ اقوام عالم میں اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا اس کے بعد آج دنیا میں جرمنی پاکستان کا چوتھا بڑا شراکت دار بن چکا ہے۔ پاکستان ترقی کیلئے ہر شعبے میں اقوام عالم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ترقی کیلئے تمام ممالک کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔ جرمنی پاکستان میں اپنا چیمبر آف کامرس قائم کرے۔ ہم پاکستان کو خطے میں تجارت کا گیٹ وے بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ضروری بنیادی ڈھانچہ اور وسائل دستیاب ہیں۔ پاکستان کا جی ڈی پی ریٹ 4 فیصد سے اوپر جا چکا ہے اس میں جرمنی کے تعاون پر شکر گزار ہیں۔ مالی خسارہ 5.2 فیصد اور ٹیکس محصولات 16 فیصد ہیں۔ اب ہماری ترجیح توانائی بحران پر قابو پانا ہے کیونکہ اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ جرمن سرمایہ کاروں کے سرمایہ لگانے سے دوطرفہ تجارت بڑھے گی۔ جرمنی کیساتھ تعلقات کو فروغ ملے گا۔ پاکستان اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ علاقائی ترقی کیلئے ایران اور چین سے بھی تعاون کے خواہاں ہیں۔ ہم نجی شعبے کی ترقی میں حائل تمام رکاوٹیں دور کر رہے ہیں۔ بجلی چوری پر قابو پانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ توانائی بحران ختم کرنے کیلئے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ توقع ہے کہ جرمنی یورپی یونین کیساتھ معاہدے میں بھی ہماری مدد کرے گا۔ جرمنی میں مقیم 70 ہزار پاکستانی اور 2300 طلباءتعلقات میں مزید بہتری کا باعث بنیں گے۔ سب کو نجکاری کے عمل میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ توانائی بحران سب سے بڑی ترجیح ہے۔ ٹیلی مواصلات میں انقلاب سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔ نجی شعبوں میں شراکت داری سے معیشت مضبوط ہو گی۔ ہوا، پانی، کوئلے اور سورج سے بجلی کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ کراچی، پشاور، گوادر نوابشاہ کے درمیان پائپ لائن بچھا رہے ہیں۔ گڈانی میں کوئلے سے بجلی بنانے کے 10 منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار ماحول ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار منافع واپس لے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔ پاکستان اور جرمنی نے توانائی کے حوالے سے دو معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق جرمنی کے تعاون سے پاکستان میں قابل تجدید توانائی فورم قائم ہو گا۔ خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے جرمنی میں بزنس کانفرنس میں شرکت کی۔ جس میں 250سے زائد جرمنی کے نمایاں کاروباری حضرات نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں سے انہیں آگاہ، چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ سے سرمایہ کاری کے مواقع پر بریفنگ دی۔ اسلام آباد سے وقائع نگار خصوصی کے مطابق وزیراعظم محمد نوازشریف جرمنی کا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد 12اور 13نومبر کو برطانیہ کا مختصر دورہ کریں گے وہ 13نومبر کو لندن میں پاک برطانیہ توانائی مکالمہ/ سرمایہ کانفرنس کا افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف توانائی کے شعبہ میں برطانوی وزرائ، سینئر حکام اور ماہرین سے بھی ملاقات کریں گے۔ دفتر خارجہ کے مطابق کانفرنس میں توانائی کے شعبہ کے چیف ایگزیکٹو افسر اور ممتاز شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد دھرنوں پر توانائیاں ضائع نہیں کرنی چاہئیں نہ ہی قوم کو گمراہ کیا جائے، دھرنے والے قوم کو گمراہ کرنے کے بجائے شعور اور بیداری پیدا کریں، قوم کو سیدھی راہ دکھائیں جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو قوم ترقی کی راہ پر چلے اچھی سڑکیں بنیں، بجلی بھی ملے، چین کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر چل پڑے تو معاشی طور پاکستان بہت مضبوط ہوگا، ہماری ضرورت ترقی ہے دھرنے نہیں، پوری قوم اور سیاستدانوں کی توجہ پاکستان چین معاہدوں پر مرکوز ہونی چاہئے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف جرمن چانسلر کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورے پر برلن پہنچے تو ان کا ہیگل ملٹری ائرپورٹ پر شاندار استقبال کیا گیا اس موقع پر خاتون اول بیگم کلثوم نواز اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی ساتھ تھے۔ ائرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم نوازشریف نے کہاکہ جرمنی کا پاکستان کے ساتھ اہم تعلق ہے، چاہتے ہیں دونوں ممالک مزید قریب آئیں سرمایہ کاری بڑھے، جرمن کمپنیاں پاکستان آئیں۔ پاکستان چین تعلقات کئی دہائیوں سے اچھے چلے آرہے ہیں اقتصادی اور معاشی تعلقات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ساتھ معاہدوں کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ پوری قوم اور سیاستدانوں کی توجہ ان معاہدوں پر مرکوز ہونی چاہئے۔ ہم ملک سے بے روز گاری ¾ غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ سکولوں ¾ سڑکوں ¾ ہسپتالوں پر توانائیاں خرچ کر نی چاہئیں۔ ترقی اور خوشحالی کا راستہ اچھا ہے دھرنوں والا راستہ اچھا نہیں۔ جرمنی کی چانسلر اور صدر سے ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات پر گفتگو ہوگی۔ ہماری زیادہ تجارت جرمنی کے ساتھ ہے۔ ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جن سے دونوں ممالک قریب آئیں۔ غربت، جہالت کے اندھیروں سے نکلنا چاہئے۔ چین اور جرمنی کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد ہوا تو 5سے 10سال میں ملک معاشی طور پر بہت مضبوط ہو جائیگا۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے نوازشریف کو دورے کی خصوصی دعوت دی تھی۔ وزیراعظم جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے ملاقات کے علاوہ اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس سے قبل جرمنی روانہ ہونے سے پہلے جرمن اخبار وی ویلٹ سے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہاکہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے جرمنی کے تعاون کی ضرورت ہے۔ معاشی استحکام حکومت کی اولین ترجیح ہے، اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں نئے دور کا آغاز ہو گا۔ رادھاکشن کے واقعہ کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، فوج انتہاپسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے، ان کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی، پاکستان افغانستان میں سرگرم عمل عسکریت پسندوں کی مدد نہیں کر رہا ، ایسے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں، شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ذریعے انتہا پسندوں کے ٹھکانے اور نیٹ ورک کو تباہ کیا، ہماری فوج کی بہت بڑی فتح ہے، دہشت گردوں کو شکست دینے میں مسلح افواج کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے، دہشت گردوں کا ہر ٹھکانہ تباہ کر دیا جائے گا، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کے لئے تمام ممکنہ مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں، افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستان میں گیس اور بجلی کی ضروریات ناکافی ہیں۔ مستحکم افغانستان ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ جرمنی کو 2014ءکے بعد بھی افغانستان کی مدد کرتے رہنا چاہئے، پاکستان خطے میں داعش کی موجودگی سے فکر مند نہیں۔ یقین ہے کہ ہم ہر دہشت گرد نیٹ ورک کو نہ صرف شکست دیں گے بلکہ ان کا ہر ٹھکانہ تک تباہ کر دیں گے۔ شدت پسندوں کے خاتمے تک لڑائی جاری رہے گی۔ نوازشریف نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ پاکستان ایسے عسکریت پسندوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے جو افغانستان میں سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان ایسا ملک ہے جو خود دہشت گردوں سے لڑ رہا ہے، ان کے نیٹ ورکس اور پناہ گاہوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ہمارے قریباً 50 ہزار افراد دہشت گردی کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں، ہماری معیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ہم کیوں دہشت گردوں کی حمایت کریں گے؟۔ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور اقتصادیات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے جرمنی کے تعاون کا خواہاں ہے، ہماری سب سے بڑی ترجیح پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا ہے اور توانائی کی فراہمی ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، ہمیں دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے مل کر کام کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔
نوازشریف/ جرمنی/ خطاب