مہنگائی اور مختلف بحرانوں نے وطن عزیز کے ماحول کو حبس زدہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ زندگی گزاناہی نہیں بلکہ سانس لینا تک مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہ سب کیا دھرا پاکستان کے بادشاہوں اور ان کے اللے تللوںکا ہے جس کے باعث غریب غریب تر اور امیر امیر تک ہوتے جا رہے ہیں۔ خودکشیوں اور جرائم ریٹ میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اکثر جگہوں پر تو مہنگائی کے مارے ہوئے لوگوں کو جھولیاں پھیلا کر بددعائیں دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ پاکستانیوں کو صرف مہنگائی ہی نہیں ڈس رہی بلکہ معاشرے میں پھیلنے والی ناانصافیوںاور قانون کی خلاف ورزیوں کو دیکھ کر عام پاکستانی یہ تاثر لینے پر مجبور ہے کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی شے موجود نہیں‘ اگر ہے بھی تواپنی رٹ کھو چکی ہے۔ پاکستان کا ہر بڑا شعبہ حکومتی سرپرستی میں چل رہا ہے اور من مانیاں کئے جا رہا ہے۔ ہر دکاندار‘ فیکٹری و مل اونر اپنی مرضی کے ریٹس مارکیٹ میں دیئے جا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے‘ روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ روزمرہ اشیائے صرف پر حکومتی حمایت یافتہ افراد کا کنٹرول ہے۔ وہی قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ایک عام سبزی فروش مادر پدر آزاد ہے۔یہ وہ سبزیاں ہیں جو پاکستان میں ہی پیدا کی جاتی ہیں‘ ان کی من مانی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔ عام آدمی تو پہلے ہی گوشت کھانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ دالیں بھی کنٹرول سے باہر ہیں۔ رہی سہی کسر سبزیاں پوری کررہی ہیں۔ ہمارے بادشاہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے بجلی کے بلوں نے عام لوگوں کی چیخیںنکلوا دی ہیں۔ ان مظلوم چیخنے والے لوگوں میں پاکستان کا وہ طبقہ شامل نہیں جو سرکاری بجلی استعمال کر رہا ہے۔کنڈوں کے ذریعے بجلی لے رہا ہے یا پھر واپڈا کی کالی بھیڑوں کے ساتھ مل کر بجلی چوری کر رہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں نے تو پاکستانیوں کی اکثریت کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ کمیشن مافیا ہی کا کیا دھر ہے کہ حکومت بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ہاتھوں کاکھلونا بن چکی ہے۔ مہنگائی کے باعث بن جانے والے اس حبس زدہ ماحول میں ایک دو خبریں مظلوم و سفید پوش پاکستانیوں کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہیں اور اللہ کرے اس ٹھنڈی ہوا کا یہ جھونکاجھونکوں میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے ۔ پاکستان میں پٹرول 9.43 ڈیزل‘ 6.18‘ مٹی کا تیل 8.16روپے سستا کر دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ روزمرہ اشیائے صرف کی قیمتیں پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پٹرول مہنگا ہونے پر مہنگائی کا جو طوفان آیا تھا‘ اس میں کافی حد تک کمی آئے گی‘ لیکن شرط وہی ہے کہ بادشاہ چاہیں گے تو ہی ایسا ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے وزارت بجلی سے بجلی کے بلوں کی بابت رپورٹ طلب کی تو رپورٹ میں اقرار کیا گیا کہ بجلی کے بلوں میں واقعی ناجائز اضافہ کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے اس سچائی کا نوٹس لیتے ہوئے اس ناجائز اضافے کو واپس لینے اور عام صارف کو ریلیف دینے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایت کے بعد کمیشن مافیا کی چالاکیاںکرتا ہے‘میڈیائی دور میں کچھ چھپایا نہیں جاسکے گا۔ سامنے آکر رہے گا کہ حکومت مہنگائی کے ڈسے ہوئے لوگوں کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوئی ہے یا پھر ایک بار کمیشن مافیا کے ہاتھوںکھیلنے لگی ہے۔ البتہ شہبازشریف عادت سے مجبور ہوکر ایک بار پھر بولے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عام آدمی تک بھی پہنچائے جائیں۔ شہبازشریف کو یہ بیان دیکر چین کی بانسری نہیں بجانی چاہئے بلکہ قیمتوں کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے۔ عمران خان کہتے ہیںکہ ہمارے دھرنے کی وجہ سے پٹرول سستا ہوا ہے۔ 30 نومبرکو بجلی سستی کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ دوست جانتے ہیں کہ میں ذاتی طورپر عمران خان کا نقاد ہوں۔ عمران خان کا سلوب سیاست اور ان کی ٹیم سے اختلاف ہے مجھے‘ لیکن یہ سچ تسلیم کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ آج پٹرول کی قیمتیں جوکم ہوئی ہیں اور وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کی جو بات کی ہے‘ ان نیک کاموں کا 70 فیصد کریڈیٹ عمران خان کے احتجاج اور دھرنوں کو جاتا ہے۔ یہ بات میںسو فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اصل اپوزیشن کا کردار عمران نے ادا کرکے ثابت کیا ہے کہ خورشید شاہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں اور یار لوگ شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ (ن) لیگ اور پی پی پی مک مکا کی سیاست کر رہی ہیں۔پٹرول سستا کرنا اور بجلی کے بلوں پر ریلیف دینا نوازشریف کے مثبت اقدامات ہیں‘ لیکن ان اقدامات کے اثرات عام پاکستانی تک بھی پہنچنا چاہئیں۔ اس کیلئے شریف برادران کو ایک خصوصی ٹیم تیار کرنا ہوگی کیونکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان کی موجودہ ٹیم بُری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اسی لئے کابینہ میں ردوبدل ضروری ہو گیا ہے۔خواجہ آصف اور عابد شیر علی ناکارہ کارتوس بن چکے ہیں۔ انہیں کھڈے لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر وزارتوں اور اداروں میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی انتھک محنت کے باوجود وزارت ریلوے مثبت نتائج نہیں دے سکی۔ یہاں بھی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ یہی حال دیگر وزارتوں اور محکموں کا ہے۔ لگتا ہے کہ شریف برادران کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ حکومت عام آدمی کو ریلیف نہیں دے سکی۔ اسی لئے تو ایوان اقتدار میں ہلچل اور تیزی دیکھنے کو مل ری ہے۔ شریف برادران کی موجودہ سرگرمیاں اور اقدامات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ شریف برادران آئندہ بھی سیاست میں ان رہنا چاہتے ہیں اور ظاہر ہے ان اسی صورت میں رہ سکمیں گے جب پسے ہوئے طبقے کو ریلیف دیں گے۔
ضرورت ہے اوور ہالنگ کی
Nov 11, 2014