ہر تقریب میں پریشانی یہ ہوئی کہ یوم اقبال پر چھٹی ہونے، چھٹی نہ ہونے کی بات ہوتی رہی… فکر اقبال اور اقبال کے پیغام کی بات ادھوری رہ گئی۔ اس حوالے سے برادرم حامد میر نے بہت خوب بات کی۔ اقبال کا دن بھی عید کی طرح متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں حج کا دن بھی ایک مضحکہ خیز صورتحال اختیار کر جاتا ہے۔ حج تو وہی ہے جو کعبہ شریف میں پڑھا گیا۔ دنیا کے تمام ملکوں سے آئے ہوئے مسلمانوں نے پڑھا مگر ہر دفعہ ہمارے ملک میں دوسرے دن منایا جاتا ہے۔ نجانے یہ کونسا حج ہے؟ علامہ اقبال نے تو کہا تھا…
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
جب ساری دنیا کے مسلمان اس رشتے سے ہم وطن ہیں تو پھر سارا جہاں ہمارا وطن ہے پھر سارے جہاں کے مسلمان ایک روز عید کیوں نہیں منا سکتے۔ وہ تو ایک دن حج کی یاد نہیں منا سکتے۔ یہ بھی اقبال نے کہا تھا…
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے
اقبال کا نام پیغام ہمیشہ رہے گا مگر ہم کہاں ہونگے؟
تو ہم یوم اقبال کی چھٹی کو کیوں روتے ہیں۔ کچھ لوگ اس چھٹی کے حق میں ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ آج ایک صوبے خیبر پختونخوا میں چھٹی ہے، باقی تین صوبوں میں چھٹی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو 27 دسمبر کو شہید بی بی کے دن کیلئے چھٹی تھی اس سال صرف سندھ میں چھٹی ہو گی اور جب یہاں کسی اور پارٹی کی حکومت ہو گی تو کیا ہو گا؟
اس سال گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے بھرپور طریقے سے یوم اقبال منایا۔ وہ صبح مزار اقبال پر گئے، پھر ایوان اقبال میں اقبال کیلئے ایک تقریب میں گئے۔ اس کے بعد نظریہ پاکستان ٹرسٹ آئے۔ شاہد رشید نے انہیں نظریاتی گورنر کہا۔ یہ شاید نظریہ پاکستان کی مناسبت سے ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہر آنے والا نظریاتی ہی ہوتا ہے۔ مرشد و محبوب مجید نظامی نے یہاں سمر سکول کیلئے نظریاتی سمر سکول کا نام تجویز کیا جو پورے پاکستان میں مشہور ہو گیا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ لگائیں کہ ہم سے بھی خواتین و حضرات کہتے ہیں کہ ڈاکٹر رفیق احمد اور شاہد رشید سے سفارش کرو۔ مجھے یاد ہے کہ یہ گذارش میں نے نظامی صاحب سے کی تھی اور انہوں نے کمال مہربانی فرمائی تھی۔
علامہ اقبال نظریہ پاکستان کے خالق تھے۔ اسی لئے انہیں مفکر پاکستان کہتے ہیں۔ گورنر صاحب رفیق رجوانہ نے کہا کہ میں نظریہ پاکستان کا ورکر ہوں، مجھے نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے وابستگی مجید نظامی کے ساتھ نیازمندی کی وجہ سے ہے۔ میں یہاں ہمیشہ کارکن نظریہ پاکستان کے طور پر شریک ہوتا ہوں۔ آج میرے دل میں فکر اقبال کی روشنی میں نظریہ پاکستان کا فروغ ہے۔ یہاں بچوں اور نوجوانوں کے دل میں یہ چراغ روشن کرنا ہے مگر ان کے دل میں آج چھٹی کا تناسب پھنسا ہوا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ صورتحال ہے۔ ہمیں تو یہ سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں تک اقبال کے پیغام اور تعلیمات کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اگلے 9 نومبر کو اکٹھے ہوں اور ہم نظریہ پاکستان ٹر سٹ کی اس شاندار تقریب میں ضرور اکٹھے ہونگے تو ہم ایک دوسرے سے پوچھیں کہ ہم نے سال بھر اس حوالے سے کیا کیا ہے… ہم آج کے دن کلام اقبال پڑھیں، اس کو سمجھیں۔ وہ جو دانائے راز تھے وہ راز انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کر دیئے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس راز گم ہو گئے ہیں۔ ہم آج کے دن عہد کریں کہ ہم اپنے آپ کو تلاش کریں گے اور قافلۂ اقبال میں شامل ہونگے۔ اصل مسئلہ اپنی قومی شناخت کا ہے۔
میں اس لحاظ سے گورنر صاحب رفیق رجوانہ سے متفق ہوں اور زیادہ چھٹیوں کے خلاف ہوں۔ چھٹی کا دن ہم میں سے اکثر لوگ سو کے گزارتے ہیں۔ اتوار کے دن اور یوم اقبال میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یوں بھی اقبال زندگی میں عشق کے جذبے پر بہت زور دیتے ہیں، اس کے بغیر ہم زندگی کو زندگی نہیں بنا سکتے…
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اب تو اندھیر اور اندھیرا رل مل گیا ہے۔ یہ شعر تو محفل میں مرغوب ہمدانی نے پڑھا، میرے ساتھ بیٹھے ہوئے علامہ احمد علی قصوری نے وجد انگیز انداز میں اسے دہرایا…
جب عشق سکھاتا ہے انداز خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عشق زندہ رہنے کا جذبہ ہے، جنون ہے، لگن ہے جس میں مگن ہو کر آدمی تھکن سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اقبال نے عشق کو ایک اسلوب حیات بنا دیا ہے مگر میں یہاں رفیق رجوانہ کو ایک شعر سناتا ہوں جس سے چھٹی کے حوالے سے سارے تنازعے دور ہو جائیں گے…
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
جو لوگ چھٹی کیلئے شور مچا رہے ہیں میرا خیال ہے ان کی تسلی ہو گئی ہو گی لیکن اس کے ساتھ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ چھٹی پہلے سے اعلان شدہ تھی۔ اس کو اس سال ختم نہ کیا جاتا اور آئندہ کیلئے پروگرم دیا جاتا۔ اس دن کو سرکاری قومی سطح پر منایا جائے گا، تقریبات ہونگی، پی ٹی وی اور ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگرام ہونگے، تعلیمی اداروں میں بھرپور تقریبات ہونگی جہاں اقبال کے کلام ان کے پیغام کے فروغ کیلئے خصوصی مذاکرات ہونگے۔ علامہ اقبال کو ابتدائی کلاسوں سے نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔ صدر مملکت یا وزیراعظم خاص پیغام دے سکتے ہیں جو ہر تعلیمی ادارے اور ہر تقریب میں سنوایا جائے گا۔ اس طرح یوم اقبال یادگار بن جائے گا۔ میرا خیال ہے ہم سارے مشاہیر قوم اور اکابرین ملت کیلئے یہ اہتمام کریں تو اس سے ایک نئی تاریخ جنم لے گی۔ چھٹی کا دن تو بیکار ہوتا ہے، اسے کارآمد بنانے کا طریقہ صرف یہی ہے۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں آج خلاف معمول صدارت کیلئے صدر رفیق تارڑ نہ پہنچ سکے۔ وہ علیل ہیں ورنہ ہر محفل کی صدارت پہلے مجید نظامی اور اب رفیق تارڑ کرتے ہیں۔ صدارت ڈاکٹر رفیق نے کی۔ مہمان خصوصی گورنر پنجاب رفیق رجوانہ تھے۔ وہ دیر سے تشریف لائے کہ پہلے بھی وہ اقبال کے حوالے سے تقریبات میں شریک تھے مگر دیر آید درست آید… انہوں نے بہت جچی تلی گفتگو کی۔ تحمل اور تدبر سے اپنی بات کو بیان کیا۔ مجید نظامی کو یاد کیا۔
علامہ احمد علی قصوری نے بہت ولولہ انگیز تقریر کی۔ ان کی تقریر کے دوران حاضرین میں بہت جوش و خروش پیدا ہوا۔ انہوں نے اقبال کے اشعار بھی برموقع پڑھے۔ جب برادرم شاہد رشید نے جسٹس ناصرہ جاوید اقبال اور دانشور ولید اقبال کو بلایا تو ان کے لئے اقبال کے پوتے اور ناصرہ بی بی کیلئے کہا کہ اقبال کی بہو اور جسٹس جاوید اقبال کی اہلیہ خطاب کرینگی۔ دونوں نے بہت جذبے اور دینی رشتے کی طاقت کے ساتھ بات کی۔ اس سے پہلے ’’نوائے وقت‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر ہمارے بہت ممتاز کالم نگار، شاعر اور ادیب سعید آسی نے خطاب کیا۔ انہوں نے مجید نظامی کے علاوہ جاوید اقبال کو بھی یاد کیا کہ وہ بھی ان محفلوں کو رونق بخشتے تھے۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد کی تقریر ہمیشہ ایک اعلیٰ استاد کے اسلوب سی ہوتی ہے، انہوں نے جب اقبال کا یہ مصرعہ پڑھاکہ ’’محبت مجھے ان جوانوں سے ہے‘‘ تو دوسرا مصرعہ طلبہ و طالبات سے پڑھوایا… ’’ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ستاروںپر کمند ڈالو، تم اگر اقبال کی محبت کے مستحق بننا چاہتے ہو۔ برادرم مرغوب ہمدانی نے کلام اقبال پڑھا اور سماں باندھ دیا…
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی