ججوں کے تقرر میں پارلیمانی کمیٹی بے اختیار؟

Nov 11, 2015

ایم اے سلہری

دستور1973ء کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے صدر کو ہی حاصل تھا اور یہ مشاورت محض رسمی نہ تھی بلکہ صحیح معنوں میں با مقصد ، شفاف اور منصفانہ تسلیم کی جاتی تھی۔ آئین جب عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے تو اس کاصاف اور سادہ الفاظ میںمطلب یہ ہے کہ مقتدر حلقوں سے آزاد عدلیہ ہی عوام کو انصاف فراہم کر سکتی ہے ۔اگر مقتدر حلقے ججوں کے تقرر جیسے حساس معاملات میں مداخلت کریں تو عدلیہ کی آزادی پر حرف آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکے گا ۔ عدلیہ کی آزادی کا بنیادی تقاضا تو یہ تھا کہ ججوں کے تقرر سمیت جملہ امور عدلیہ نہ صرف عدلیہ کے کنٹرول میں رہیں بلکہ ان پر سیاسی حلقوں کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہئیے مگر اس کے باوجود اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کا طریقہ ء کار یکسر بدل دیا گیا۔ ترمیم کی رو سے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن تجویز کیا گیا جسے ججوں کی نامزدگیوںکو حتمی شکل دینے کیلئے اپنی سفارشات سینیٹرز اور ممبران قومی اسمبلی پر مشتمل آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے کا اختیار دیا گیا۔ اٹھارھوں ترمیم کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جو جوڈیشل کمیشن تجویز کیا گیا ، سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کیلئے اس کے ارکان میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں کے علاوہ ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج سپریم کورٹ، وفاقی وزیر قانون و انصاف ،اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایک ایڈووکیٹ سپریم کورٹ شامل ہیں جبکہ ہائیکورٹ کے جج کے تقرر کیلئے کمیشن کے اراکین میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ ایک سینئر جج ،صوبائی وزیر قانون و انصاف اور متعلقہ صوبائی بار کونسل کا نامزد کردہ ایک سینئر ایڈووکیٹ بھی ہمراہ شامل ہونگے۔پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ چودہ دن کے اندر اکثریتی فیصلے سے کمیشن کی جانب سے نامزدگی کی توثیق کرکے تقرری کیلئے نام صدر کو بھجوائے یاتین چوتھائی اکثریت سے کمیشن کی نامزدگی کی توثیق نہ کرنے کا فیصلہ کرے ،ایسی صورت میں کمیشن کو نئی نامزدگی بھجوانا ہوگی بصورت دیگر میعاد گزرنے پرکمیشن کی نامزدگی کی توثیق تصور ہوگی ۔یہ آئینی ترمیم سابقہ جمہوری حکومت کے دو ر میں۸ اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی نے اور ۱۵ اپریل کو سینیٹ نے منظور کی جبکہ ۱۹ اپریل ۲۰۱۰ء کو صدر کے دستخطوں سے یہ ترمیم پاکستان کے آئین کا حصہ بن گئی۔ اس کے بعد انیسویں ترمیم کا بل قومی اسمبلی نے ۲۲ دسمبر ۲۰۱۰ء کو منظور کیا سینیٹ نے بھی ۳۰ دسمبرمنظور کرلیا اور یکم جنوری ۲۰۱۱ء کو صدر کے دستخطوں سے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنا۔انیسویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کی سفارشات مسترد کرنے کی صورت میں اپنے فیصلے میں وجہ جواز واضح کرنے اور توثیق کی صورت میں سفارشات براہ راست صدر کی بجائے وزیر اعظم کو بجھوانے کا پابند بنا دیا گیاہے۔باور کیا جا سکتا ہے کہ وجہ جواز واضح کرنے کی پابندی کو پارلیمانی کمیٹی کے ممبران نے شروع سے ہی اپنے اختیارات پر ناقابل قبول قدغن سمجھ رکھا ہے اور بالآخر کمیٹی نے خود کو قومی خزانے پر بوجھ قرار دیتے ہوئے تحفظات دور ہونے اور بامقصد کردار ملنے تک آئندہ اجلاس نہ بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔کمیٹی کے اراکین کا خیال ہے کہ ججوں کے تقرر میں کمیٹی کی حیثیت محض ربر سٹیمپ کی ہے اسلئے جب تک بامقصد کردار نہیں ملتا کمیٹی کا اجلاس بلانا بے معنی ہے۔کمیٹی کے اس احتجاجی انداز سے صاف ظاہر ہے کہ کمیٹی کے اراکین اپنے اختیارات میں کسی حد تک اضافہ چاہتے ہیں ۔وہ اس حوالے سے بامقصد کردار چاہتے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اراکین اس کمیٹی کے اختیارات میں کس قدر اضافہ چاہتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی نامزدگیوں کو مسترد کرنے کی صورت میں وجہ جواز واضح کرنے کی آئینی پابندی سے نالاں ہے یایہ جوڈیشل کمیشن کی نامزدگیوں میں آسان رد و بدل کے اختیار کی خواہاں ہے ایک بات طے ہے کہ آئین کی رو سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ۔ عدلیہ کی آزادی مقدم ہے۔پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کا حزب اقتدار اور حزب مخالف بنچوں سے تعلق ہے ۔سیاستدانوں پر مشتمل اس آٹھ رکنی کمیٹی کے اراکین کا ججوں کے تقرر کے حوالے سے اپنے موجودہ آئینی کردار پر عدم اطمینان قوم کیلئے تشویش کا باعث ہے ۔ جوڈیشل کمیشن کے اراکین میں بھی وزاراء اور وکلا ء موجود ہیں۔اور یہ وکلاء عدالتوں میں پیش بھی ہوتے ہیںان کے عدالتوں میں پیش ہونے پر کوئی پابندی بھی نہیں۔ اگر قانونی ماہرین کی خدمات سے استفادہ ہی مقصود تھا تو شفافیت کے تقاضوں کے پیش نظر جوڈیشل کمیشن میں نان پارٹیزن اور نان پریکٹسنگ قانونی ماہرین کو شامل کر کے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔مگر ایسا نہ کیا گیا حالانکہ ملک میں ایسے ماہرین کی کمی نہیں۔اب جبکہ پہلے ہی سمجھ سے باہر ہے کہ ان آئینی ترامیم کے ذریعے وکلاء ، وزارائ،اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کوآئینی اختیار دے کر ججوں کے تقرری پروسیس میں شامل کرکے عدلیہ کی آزادی کا کونسا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے یا اس میں قوم کی کونسی خدمت پنہاں ہے ،پارلیمانی کمیٹی کا مزید ’’بامقصد‘‘ کردار کیلئے بے تاب ہونا قوم کیلئے کسی لمحہء فکریہ سے کم نہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس پر بضد رہنے سے نہ صرف کمیٹی کے بارے میں منفی تاثر ابھر سکتا ہے بلکہ یہ پہلوعدلیہ کی آزادی کے تقاضوں کے بھی منافی ہے اور قوم کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتی کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی حرف آئے ۔ اس بات کا ادراک اشد ضروری ہے کہ آزاد عدلیہ قوم کی بقاء کی ضامن ہوتی ہے لہٰذا عدلیہ میں کسی سطح پر سیاسی یا وکالتی مداخلت کی سوچ انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور یقینی طور پر عدلیہ کی آزادی کے تقاضوں کے پیش نظر نہ صرف موجودہ آئین اور قانون کے وہ تمام حصے قابل نظرثانی ہیں جن سے عدلیہ کی آزادی کوکسی لحاظ سے خطرات لاحق ہونے کے خدشات ہوں بلکہ روزمرہ قانون سازی کے عمل میں بھی اس پہلو سے چشم پوشی در حقیقت شفافیت،میرٹ اور انصاف سے پہلو تہی کے مترادف ہے۔

مزیدخبریں