سیاست خصوصاً بین الاقوامی سیاست ایک دلچسپ کھیل ہے۔ اس میں نہ کوئی ملک مستقل دشمن رہتا ہے اور نہ کوئی مستقل دوست۔ کل کے دشمن آج دوست بن سکتے ہیں اور آج کے دوست کل کو مخالف سمت میں جا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں دشمنی اور دوستی کا انحصار ملکی مفادات اور بین الاقوامی حالات پر ہے۔
بدلتے حالات کے ساتھ ملکی مفادات بھی بدلتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی دوستی اور دشمنی بھی۔ یہی حالات اس وقت روس اور پاکستان کے ہیں۔ ایک دور تھا کہ روس اور پاکستان کے تعلقات کافی کشیدہ تھے۔ روس بھارت سے بہت قریب تھا جبکہ پاکستان کی دوستی امریکہ کے ساتھ تھی۔ سرد جنگ کے دور میں امریکہ اور روس ایک دوسرے کے دشمن تھے اور یہی حال انکے اتحادی ممالک کا تھا۔ ادھر پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے ہیں یہاں تک کہ دونوں ممالک آپس میں چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان چاروں جنگوں میں روس اور بھارت اتحادی رہے اور روس بھارت کے ایما پر پاکستان کو ہر قسم کا نقصان پہنچانے کے درپے رہا یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے معاملہ پر روس نے ویٹو تک کا استعمال کیا۔ ہر بین الاقوامی فورم پر روس نے پاکستان کیخلاف بھارت کا ساتھ دیا۔1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھی روس ہی کا ہاتھ تھا۔
پاکستان نے روس دشمنی کا بدلہ افغانستان کی جنگ میں چکایا اور روس جیسی سپر پاور کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ شکست روس کیلئے اس حد تک تکلیف دہ ثابت ہوئی کہ روس اپنی علاقائی سالمیت بھی برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ ان حالات میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کبھی روس اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں یا ان دونوں کے درمیان سیاسی کشیدگی دوستی میں بدل سکتی ہے۔ پھر بین الاقوامی حالات نے پلٹا کھایا اور ہمارے درمیان کشیدگی دوستی میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بڑھتی ہوئی گرمجوشی کے کئی اقدامات سامنے آ رہے ہیں۔ اس کی ایک تو واضح مثال پچھلے ماہ ختم ہونیوالی فوجی مشقیں ہیں جو دونوں ممالک نے ملکر دہشتگردی کیخلاف کیں۔ دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے قریب آنے، ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کی صلاحیتیں پرکھنے کا موقعہ ملا۔ ان مشقوں کو ’’دوستی 2016‘‘ اور روسی زبان میں Druzhba کا نام دیا گیا۔ یہ مشقیں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل تھیں کہ ان مشقوں کے انعقاد سے کچھ ہی دن پہلے بھارتی کشمیر میں اوڑی کے مقام پر ایک بھارتی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر دہشتگردی کا حملہ ہوا جس میں 18بھارتی فوجی مارے گئے اور بھارت نے اس دہشتگردی کا الزام پاکستان پر لگایا جس سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں سخت کشیدگی آئی یہاں تک کہ بھارت نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کرنے کی کوشش بھی کی جبکہ پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے سراسر انکار کیا۔ روس اور بھارت کی چونکہ طویل عرصہ سے دوستی ہے تو خیال تھا کہ روس بھارت کا ساتھ دیگا اور یہ مشترکہ جنگی مشقیں منسوخ کر دیگا لیکن روس نے تو بھارت کے حق میں پاکستان کیخلاف کوئی بیان دیا اور نہ ہی یہ مشقیں منسوخ کیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روس جو ماضی میں بھارت کی ہر حرکت اور ہر بیان کو بین الاقوامی طور پر سپورٹ کرتا تھا اس دفعہ اس نے ایسا نہیں کیا اور یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
یہاں یہ یاد رہے کہ مشترکہ فوجی مشقیں پہلی دفعہ منعقد نہیں ہوئیں۔ اس سے پہلے پاکستان اور روس ملکر 2014 اور 2015 میں نیوی کی مشترکہ مشقیں کر چکے ہیں جنہیں Arabian Monsoon 14 اور Arabian Monsoon 15 کا نام دیا گیا تھا۔ اب روس نے 2017 میں بھی مشترکہ فوجی مشقوں کا عندیہ دیا ہے۔ روس دفاعی طور پر بھی پاکستان کی مدد کر رہا ہے جو کہ ماضی میں بعید از قیاس تھا۔
پچھلے سال پاکستان نے روس سے 4 عدد Mi-35 گن شپ ہیلی کاپٹرز خریدے اور اب روسی جنگی طیاروں Su-35 کی خرید پر بات چیت جاری ہے۔ پچھلے ایک سال سے پاکستانی فوجی افسران باقاعدگی سے روسی فوج کی طرف سے دی گئی دعوتوں پر روس جا چکے ہیں جس سے دونوں ممالک کی افواج میں تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ پاکستان سے قربت کی ایک واضح مثال حال ہی میں بھارت میں منعقد ہونیوالی ’’برکس‘‘ کانفرنس کے موقعہ پر بھی سامنے آئی۔
بھارتی وزیراعظم کی تمام تر کوششوں کے باوجود روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دینے یا دہشتگردی کی معاونت کرنے والا ملک قرار دینے کیلئے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔
یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور روس کے تعلقات میں سرد مہری اور پاکستان کے تعلقات میں گرمجوشی کیونکر آئی ہے جبکہ روس کو پتہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ازلی دشمن ہیں اور بھارت روس کی پاکستان سے قربت برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کیساتھ فوجی مشقوں پر بھارت تڑپ اُٹھا اور روس میں بھارتی سفیر پنکج سارن نے روس کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ’’روس اور پاکستان کا فوجی تعاون غلط حکومتی پالیسی ہے جس سے مستقبل میں مسائل بڑھیں گے‘‘ ۔
بھارت اور روس کی دوستی کم از کم 70 سالہ پرانی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی ایک دفاعی، معاشی، اقتصادی اور ثقافتی معاہدے قائم ہیں۔ دونوں ممالک بین الاقوامی طور پر ایک دوسرے کے سپورٹرز رہے ہیں۔ بھارت روسی اسلحے کا بھی سب سے بڑا خریدار رہا ہے یہاں تک کہ بھارتی فوج کا 70 فیصد اسلحہ روس ہی سے خرید کیا گیا تھا۔ روسی اور بھارتی فوج کے بھی آپس میں قریبی تعلقات ہیں۔ ان حالات کے پس منظر میں یہ بات سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے کہ روس بھارت کے ساتھ پرانی دوستی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارت کے ازلی دشمن پاکستان سے تعلقات ہموار کرے۔ اسکی کئی ایک وجوہات ہیں۔
اسکی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے ’’سرد جنگ‘‘ کے دور میں بھارت اور روس بہت قریب تھے لیکن اب سرد جنگ والی بھارتی نسل سیاسی طور پر بے اثر ہو چکی ہے۔ بھارت کی نئی نسل امریکہ کی بڑی مداح ہے۔ بھارتی نوجوان تعلیم اور ریسرچ کیلئے امریکہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق کئی لاکھ بھارتی نوجوان اس وقت امریکہ میں تعلیم اور ریسرچ کیلئے مقیم ہیں۔
پچھلے سال PEW Research Centre نے بھارت میں ایک سروے کرایا جس کے مطابق 70 فیصد بھارتیوں نے امریکہ سے تعاون کے حق میں رائے دی جبکہ روس کے حق میں صرف43 فیصد لوگوں نے مثبت رائے کا اظہار کیا۔ اسی طرح 8 فیصد لوگوں نے امریکہ کیخلاف منفی رویے کا اظہار کیا لیکن16 فیصد بھارتیوں نے روس کیخلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اسی وجہ سے اب بھارت نے امریکہ سے دفاعی معاہدے کر کے امریکی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کی ہے اور روس اس بدلتے ہوئے رویے سے لا تعلق نہیں رہ سکتا۔
اسکی دوسری بڑی وجہ چین ہے۔2014ء میں جب روس نے کریمیا کو روس میں ضم کیا تو امریکہ اور مغربی دنیا روس کیخلاف ہو گئی۔ روس پر شدید قسم کی پابندیاں لگا دی گئیں تو روس کو ایک طاقتور دوست اور اتحادی کی ضرورت پیش آئی جو اسے چین کی صورت ملا۔ چین اور بھارت کے تعلقات کئی وجوہات کی وجہ سے سرد مہری کا شکار ہیں جبکہ چین اور پاکستان گہرے دوست ہیں تو پاکستان چین دوستی روس کو پاکستان کے قریب لائی۔
اسکی تیسری بڑی وجہ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی طاقت ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے بھارت داعش کی سرپرستی کر رہا ہے جبکہ داعش وسط ایشیا میں تیزی سے اپنی طاقت بڑھا رہی ہے جس سے روس بھی خوفزدہ ہے جبکہ پاکستان داعش اور افغانستان سے جنم لینے والی دہشتگردی کے سخت خلاف ہے لہٰذا روس کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس خطرے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس تعاون کی ایک اور وجہ پاکستان میں بننے والی اقتصادی راہداری بھی ہے جو روس کو بحرِ ہند کے گرم پانیوں تک رسائی دے سکتی ہے جو روس کا ایک دیرینہ خواب ہے۔
٭…٭…٭