مشرق وسطیٰ میں لبنان کی بدلتی صورتحال جس تیزی سے بگڑ رہی ہے اس کا اندازہ آپ سعد حریری کے سعودی عرب میں بیٹھ کر مستعفی ہو جانا اور یہ کہنا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے اور اسکے بعد سعد حریری کہیں روپوش ہیں دوسری طرف سعودی عرب میں اتنے وسیع پیمانے پر شہزادوں کی گرفتاری مختلف شعبہ ہائے سرکار کے وزرا اور افسران کی گرفتاری کس قدر کشیدگی کا پتہ دے رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں سعد حریری کا لبنان میں ایرانی مداخلت کا الزام انتہائی سنگینی کا اشارہ ہے۔ لبنان میں حسن نصراﷲ قوم سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اسرائیل اپنی حکمت عملی طے کرے گا تو مسلمان ممالک جو زخموں سے پہلے ہی چور ہیں وہ اس حساس معاملات میں کیا طے کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم الجزیرہ چینل پر جس طرح سعودی اور لبنانی کشیدہ صورتحال پر تبصرے جاری ہیں ان سے آئندہ کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں یمن‘ ترکی اور قطر کی بڑی اہمیت ہے۔ چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔
ادھر ہمارے خطہ میں ہندوستان‘ افغانستان اور ایران جیسے قریبی ہمسایوں کا اتحاد ثلاثہ پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ امریکی صدر کے ڈومور کے جواب میں نو مور کے بعد ہماری سرحدوں پر ہر قسمی نقل و حرکت بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستانی معیشت بہت بری نہیں تو بہت اچھی بھی نہیں۔ اندرونی سیاست بھی ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے پاس جانا پڑے گا جو امریکی اثر و رسوخ کے تابع ہیں اور وہ قرضہ دیتے وقت اتنی کڑی شرائط رکھ سکتے ہیں جن کو پورا کرنا شاید ہمارے بس میں بھی نہ ہو۔ لیکن ہماری مسلح افواج نے بھی اس بار تہیہ کر رکھا ہے کہ اب ڈو مور نہیں ہو گا اور ایسا قرضہ نہیں حاصل کیا جائے گا جس سے بقول اقبال
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
امریکہ بھی پوری طرح باخبر ہے کہ اب پاکستان کے ائر فیلڈ پر سے قبضہ چھڑوا لیا گیا تو کیا ہو گا؟ افغانستان میں اربوں‘ کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کابل تک محدود ہے اور انہیں پاکستانی بارڈر پر آنے کی توفیق نہیں ہو سکی۔ پاکستان کے اندر سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ایک طبقہ جو صرف اس تکرار میں مگن ہے کہ ہندوستان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کا مسئلہ ہماری فوج کا کھڑا کیا ہوا ہے۔ یہ ترقی پسند اور لبرل طبقہ انڈیا سے محبتیں بڑھانے کا حامی ہے اور اب کچھ لوگ تو پاکستان اور انڈیا کے بارڈر کو ایک لکیر سمجھتے ہیں۔ دو قومی نظریہ کی اینٹ سے اینٹ اس طرح بجا دی کہ ’’ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں‘‘ اسی فکر سے ملک کو نقصان پہنچ جانے کا احتمال ہے۔ ایسے بیج بونے سے دشمن ہمارے اندر نسل‘ زبان اور قومیت کی بنیاد پر علیحدگی کی تحریکوں کو شہ دے سکتا ہے۔ مسلمانوں کی قوت ایمانی سے تو انڈیا لرزہ براندام ہے۔ صرف بمبئی میں اڑتیس فیصد مسلمانوں کی آبادی کے باوجود وہ خوفزدہ ہے۔ مجموعی طور پر تیس کروڑ مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں۔ چائنہ کے تعاون کے بعد تو ہندوستان کے بس کی بات نہیں کہ وہ چین یا پاکستان سے جنگ جاری رکھ سکے۔
اتحاد ثلاثہ میں ایران ایسا ملک ہے جس کو بہت سوچ بچار کرنا ہو گی۔ افغانستان کو بھی غور و فکر کرنا ہوگی کیونکہ افغانستان میں محمود غزنوی سے بھی پہلے ان کی اپنی تہذیب و ثقافت ہے۔ مذہب اور دین سے محبت افغانی کی روح میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ اولیاء کی سرزمین ہے۔ ادب و طریقت کے اصولوں سے آشنا ہیں جتنے حملہ آور آئے وہ ناکام و نامراد لوٹے۔ روس گرم پانیوں تک پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ امریکہ نے افغانستان کو بہانہ بنا کر پاکستان کو ٹھکانہ بنانے کا سوچا تو وہ خود وہیں دھنس چکا ہے اور وہ بھی ناکام واپس جائے گا کیونکہ افغانی اپنی سرزمین پر کسی غیر کا وجود برداشت نہیں کرتا۔ روس اور امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ افغانستان سے مُلا کو نکال باہر کرے اور محمد عربیؐ کی محبت سے ان کو خالی کر دیا جائے لیکن یہ جذبہ آج تک کوئی نہیں نکال سکا اور یہی جذبہ پاکستانی سرحدوں کی ڈھال ہے۔ جو ہمیشہ قائم رہے گی اور اتحاد ثلاثہ پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہچا سکے گا۔ جب تک افغان باقی کہسا ر باقی علامہ اقبال نے اسی قوم کیلئے یہ پیغام بھی دیا تھا۔
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو اسکے کوہ و دمن سے نکال دو
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتے نہیں ذرا
روح محمدؐ ان کے بدن سے نکال دو
٭٭٭٭٭