حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری ؒ

اللہ کے ولی بتاتے ہیں اس عالم خاکی میں جمادات سے لے کر انسان تک جو کچھ نظر آتا ہے وہ مٹی ہی مٹی ہے۔ آدمی کے تمام اجزاء مٹی ہی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ دہن میں مٹی ہے اور جو خوراک منہ میں ڈالی جاتی ہے وہ بھی خاک کی پیداوار ہے۔ جانور کا گوشت بھی نباتات کی مبدل صورت ہے اور نباتات مٹی کی بدلی ہوئی شکل، غرض یہ کہ گل و ثمر کی گونا گونی، حیوانات کی انواع، مسلمان یا کافر، پاکستانی یا امریکی سب کے رنگ مٹی ہی کے رنگ ہیں لیکن یہ بو قلمونی عارضی اور اعتباری ہے۔ رنگ و نگار، سب مستعار ہیں۔ سب خاک میں ابھرتے ہیں اور انجام کار پھر خاک ہو جاتے ہیں۔ فقط ’’صبغتہ اللہ‘‘ ہے جس کا رنگ اگر انسان پر چڑھ جائے تو عالم حقیقی میں وہ سب سے زیادہ بارونق اور پائیدار ہوتا ہے۔ صدق ، تقوی اور یقین کا رنگ ہی ابد تک برقرار ہے اس لئے حضرت علی بن عثمان ہجویری صبغۃ اللہ ہیں ۔ آج 973 سال بعد بھی وہ زندہ و جاوید ہیں۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری 400ہجری کو غزنی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نامی علی والد کا اسم گرامی عثمان ہے۔غزنی کے قصبے ہجویر میں پیدا ہوئے بعد ازاں آپ ایک اور قصبے جلاب منتقل ہوئے اسی نسبت کی وجہ سے ہجویری و جلابی کہلائے۔ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ نو واسطوں سے آپکا سلسلہ نسب حضرت علی ؓ سے جا ملتا ہے آپ حنفی اور طریقت میں حضرت جنید بغدادی ؒ کے مقلد تھے۔

حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ نے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کیلئے شام، عراق، بغداد، پارس، کرمان، خراسان، ماورالنہر اور ترکستان کا سفر کیا اور وہاں کے علماء و مشائخ اور صوفیوں کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے جن بزرگوں سے اکتساب کیا ان کی تعداد تین سو سے اوپر ہے۔ کشف المحجوب میں حضرت ابو القاسم قشیری ؒ، حضرت ابو القاسم گرگانی ؒ اور شیخ ابو سعید ابوالخیر ؒ کی ذات گرامی سے فیض حاصل کرنے کا تذکرہ خاص موجود ہے۔431ہجری میں لاہور تشریف لائے اور یہاں آپ نے علوم دین اور اشاعت اسلامی کا ایک ایسا چشمہ فیض جاری کیا جس سے چھوٹے بڑے، ادنیٰ و اعلیٰ سبھی سیراب و فیض یاب ہوئے۔ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ جب لاہور تشریف لائے یہ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی کا دور حکومت تھا۔ محمود غزنوی اس سے پہلے لاہور کو فتح کرکے یہاں اپنا صوبیدار مقرر کر چکا تھا لیکن حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ نے کبھی بھی دربار یا حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھا بلکہ اپنے عمل و فضل، زہد و تقویٰ اور خدمت خلق کے ساتھ لوگووں کی زندگیوں کو بدل دیا انکی زندگیوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی سے منور کردیا۔
انہوں نے کشف المحجوب فارسی زبان میں اس لئے تحریر کی کہ عجمی لوگ اس سے بھرپور استفادہ حاصل کر سکیں۔ کشف المحجوب کے بارے میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کا ارشاد ہے ’’ اگر کسی کا پیر نہ ہو تو ایسا شخص اس کتاب کا مطالعہ کرے‘‘ یعنی یہ کتاب پیر کامل نہ ہونے پر متبادل کا درجہ رکھتی ہے۔ شیخ محمد اکرم ’’آب کوثر‘‘ میں لکھتے ہیں۔ یہ کتاب آپ نے اپنے رفیق ابو سعید ہجویریؒ کی خواہش پر جو آپکے ساتھ غزنی چھوڑ کر لاہور آئے تھے، لکھی اور اس میں تصوف کے طریقے کی تحقیق، اہل تصوف کے مقامات کی کیفیت، ان کے اقوال اور صوفیانہ فرقوں کا بیان معاصر صوفیوں کے رموز و اشارات اور متعلقہ مباحث بیان کئے ہیں۔ اہل طریقت میں اس کتاب کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ تاریخ مشائخ چشت کے مطابق کشف المحجوب نے ایک طرف تو تصوف سے متعلق عوام کی غلط فہمیوں کو دور کیا اور دوسری طرف اسکی ترقی کی راہیں کھول دیں۔کشف المحجوب تاریخی طور پر ایک مستند علمی دستاویز بھی ہے۔ اس کتاب میں جن رموز طریقت اور حقائق معرفت کو بیان کیا گیا ہے ان کی بنیاد حضرت علی بن عثمان ہجویری نے اپنے مکاشفات پر نہیں بلکہ علمی بنیادوں پر رکھی ہے۔ سب سے پہلے ماخذ قرآت و سنت کو قرار دیا۔ اسکے بعد دنیائے عرفان کی مستند علمی کتاب کا حوالہ دیا گیا یعنی اولاً وہ قرآن حکیم اور ارشاد نبویؐ سے مضمون کی سند لاتے ہیں پھر اس کا استدلال آثار و اخبار سے کرتے ہیں اور اگر اس مضمون کا استدلال کم محسوس کرتے ہیں تو دلیل کے طور پر اکابرین ارباب تصوف کے یہاں ا کی سند تلاش کرتے ہیں۔ اس علمی و تحقیقی خصوصیات کی بنا پر آنیوالے ہر مصنف نے خواہ وہ خود کتنی بڑی علمی و روحانی شخصیت ہو اس کتاب کا حوالہ دیا اور فخر سے اس کتاب کی سند پیش کی جن میں خواجہ فرید عطارؒ، مولانا جامیؒ، خواجہ محمد پارساؒ، خواجہ بندہ نواز گیسودرازؒ، اقبال ؒجیسے لوگ شامل ہیں۔ حال میں تصوف پر جن لوگوں کے کام کو عوامی پذیرائی ملی مثلاً اشفاق احمد، پروفیسر رفیق اختر ، قمر اقبال صوفی ان سب کی علمی بنیاد کشف المحجوب ہی ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں ’’ اینی وطنات کے قبیل سے ہے او رغین خطرات کے قبیل سے‘‘۔ وطنات وطن کی جمع ہے جسکے معنی قائم اور پائیدار رہنے کے ہیں اور خطرات خطر کی جمع ہے جس کے معنی عارضی اور ناپائیداری کے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پتھر کبھی آئینہ نہیں بن سکتا چاہے اس کو کتنا ہی صیقل اور صاف شفاف کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر آئینہ زنگ آلود ہو جائے تو تھوڑا صاف کرنے سے وہ مجلیٰ اور مصفیٰ ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پتھر کے اندر تاریکی اور آئینہ کے اندر چمک اسکی ذاتی اور اصلی خوبی ہے، چونکہ ذات واصل قائم اور پائیدار رہنے والی چیز ہوتی ہے اس لیے وہ اس طرح زائل نہیں ہو سکتی اور صفت چونکہ عارضی و ناپائیدار ہوتی ہے اور وہ قائم اور باقی رہنے والی چیز نہیں ہوتی اس لیے جلد زائل ہو جاتی ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒکی ذات مبارک اور انکی کتاب کی صورت ان لوگوں کیلئے جو غینی حجاب میں ہیں انکے زنگ آلودہ دلوں کو منور کرتی ہے۔ اینی حجاب کے حامل جنکے دلوں پر مہر لگی ہے ان کو کیسے بدلہ جا سکتاہے ۔ ان کے دلوں کی مہریں اللہ نے لگائی ہیں۔ صبغتہ اللہ کا رنگ اسی پر چڑھتا ہے جس کے دل اینی حجاب کے بجائے غینی حجاب میں ہوں۔ آج ایک ہزار سال بعد بھی صبغتہ اللہ کا رنگ غینی فرد کیلئے نور و فیض کا باعث ہے۔

ای پیپر دی نیشن