سیاسی چالیں اور افواہیں

Nov 11, 2017

رحمت خان وردگ....

آصف زرداری کو ملک کا سب سے بڑا سیاسی شعور رکھنے والا شخص سمجھا جاتا ہے ۔ جس کا ثبوت انکی سیاسی زندگی میں اپنے بڑے سیاسی مخالفین کو اپنا ہم نوا بنا لینا ہے۔چوہدری برادران پیپلز پارٹی کے سخت ترین مخالف تھے لیکن آصف زرداری کی شخصیت نے ایسا جادو کیا کہ چوہدری برادران گزشتہ پی پی حکومت کا حصہ بن گئے۔ 2013 کے انتخابات میں آصف زرداری کے تجویز کردہ ناموں میں سے ہی عبوری وزیر اعظم بنابلکہ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ نجم سیٹھی کو ہی عبوری وزارت اعلی ملی۔نئے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا نام بھی پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا جن کی تقرری ہو چکی ہے اور یہ تقرری آصف زرداری کی سیاسی بصیرت کا ایک اور ثبوت ہے۔اگر 2018میں بروقت انتخابات منعقد ہوئے تو ایک بار پھر عوامی رائے یہی ہے کہ وفاقی وصوبائی عبوری حکومتیں قائم کرنے میں آصف زرداری کا اہم ترین کردار ہوگا۔دوسری طرف پنجاب میں ن لیگ سے ناراض کھوسہ فیملی نے بھی ن لیگ سے علیحدگی اختیار کرکے تحریک انصاف کے بجائے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔

ایئرمارشل اصغر خان نے1979ء میں موجود ہ ڈیمو کریسی کو ڈاکو کریسی کہا تھاجن لوگوں نے کرپشن کی ہے وہ رضاکارانہ طور پر سیاست سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ جاگیرداروں اور صنعت کاروں نے ملک کو لوٹا ہے۔اس وقت فلور مل مالک‘شوگر مل مالک‘ٹیکسٹائل مل مالک اسمبلیوں میں ہیں جو ٹکٹ کیلئے 10کروڑ تک پارٹی فنڈ دیکر اسمبلیوں میں آتے ہیں اور پھر کرپشن سے اربوں روپے بناتے ہیں۔
اب نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کے انعقاد کیلئے آئین میں ترمیم کرکے حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے لیکن اپوزیشن اس کیلئے تا خیری حربے استعمال کر رہی ہے ۔حکو مت کو چاہئے کہ وہ آئین میں بروقت ترمیم یقینی بنائے ورنہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے تا کہ اس کا فیصلہ ہو سکے اگر ایسی ہی صورتحال بر قرار رہی اور آئین میں ترمیم نہ ہو سکی تو جون 2018 میں حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد چونکہ انتخابات ممکن نہیں ہوں گے اس لئے سپریم کورٹ ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کر سکتی ہے۔
اگر 2018میں انتخابات بروقت ہوگئے تو پنجاب میں ن لیگ کو شکست دینا تقریبا ناممکن ہے۔ بشرطیکہ موجودہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے میں کامیاب ہو جائے۔ن لیگ نے 2013کے انتخابی منشور میں قوم سے جو وعدے کئے تھے تقریبا پورے ہو جائینگے جبکہ ن لیگ کے مد مقابل پنجاب میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی کامیابی بہت مشکل ہے۔اسی لئے ن لیگ کے مخالفین یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ پہلے تین سال کڑا احتساب ہوگا اور اسکے بعد بچ جانیوالے انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔کرپشن کے خاتمے اور ملک کی دولت لوٹنے والوں سے ایک ایک پائی کی وصولی پوری قوم کا اولین مطالبہ ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں احتساب کا نام لیکر اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لیا گیا۔اللہ کرے اگر واقعی احتساب ہونا ہے تو شفاف‘غیر جانبدار اور منصفانہ ہونا چاہئے اور نہ تو مشرف کو NROدینے کا اختیار حاصل تھا نہ اب کسی کو NROدینے ‘جانبداری کرنے یا سیاسی انتقام لینے کا اختیار حاصل ہے۔البتہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد میں کرپشن کیمطابق ہونیوالی گرفتاریوں میں جس طرح مجرم دھڑا دھڑ ضمانتیں کروا کر پوری دنیا میں آزاد گھوم رہے ہیں۔اس سے عوام مایوسی کا شکار ہیں۔
ٹیکنو کریٹ حکومت کے متعلق اپوزیشن سے زیادہ اب حکومتی ارکان کی جانب سے باتیں ہو رہی ہیں لیکن ایسا آئین میں کس طرح ممکن ہے؟ خواجہ آصف نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ پیراڈائیز لیکس میں اس شخص کا نام بھی آگیا ہے جس کا ٹیکنو کریٹ حکومت میں وزیر اعظم بننے کانام تھا۔ حکومتی ارکان خو د ہی ٹیکنو کریٹ حکومت کے متعلق زیادہ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔نواز شریف اور مریم کی پیشی پر اداروں کے خلاف ہنگامہ آرائی اور بیان بازی حکومت کیلئے ٹھیک نہیں۔موجودہ حکومت شکر کرے کہ آرمی چیف پنجاب کا ہے ورنہ حکومت کب سے ختم ہو جاتی اور سب کرپٹ سیاست دانوں کو عوام کی اکثریت جیلوں میں دیکھنا چاہتی ہے۔

مزیدخبریں