معیشت کی ترقی میں ٹیکسز کی اہمیت

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کوئی بھی معاشرہ یا قوم سزا و جزا کے تصور کے بغیر اوراپنے اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو ادا کئے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا ہے۔ اسی طرح سے یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ٹیکسوں کی ادائیگیوں کے بغیر کسی ملک یا قوم کی معیشت مضبوط ومستحکم نہیں ہوسکی ہے۔ اسکے علاوہ یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ جو معاشرے یا قومیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کرتے اور صرف بھیک، قرضہ اور امداد کے مرہون منت رہتے ہیں وہ ہمیشہ غلاموں کی طرح زندگی گذارنے پر ہی مجبور ہوتے ہیں جبکہ قول وفعل کے تضادات بھی تعمیری اور کامیاب معاشرہ بننے کی راہ میں روکاوٹ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار بھی انہی معاشروں، قوموں اور ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھا ہے اور نہ سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں سزا وجزا کے منصفانہ نظام کو رائج نہ ہونے دیا گیا، نہ ہی ٹیکسوں کے نظام کواس کی صحیح روح کے ساتھ نافذ ہونے کیا گیا اور نہ ہی قرضوں و امداد کی پالیسیوں سے کنارہ کرتے ہوئے اپنے وسائل کو استعمال کرکے معیشت کو مضبوط ومستحکم بنانے کی جانب قدم بڑھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج آزادی کے ستر سال بعد بھی بائیس کروڑ آبادی کے ملک میں ٹیکس ادا کرنیوالوں کی تعداد صرف 13.2 لاکھ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنیوالوں کا تناسب صرف 0.6 فیصد ہے ،جن میں سے زیادہ ترافراد کی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے ۔ اسی لئے پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے ٹیکس ادا کرنیوالوں کا یہ تناسب خطے کے دیگر ممالک میں سب سے کم ہے۔ جبکہ آبادی کے تناسب سے بھارت میں ٹیکس ادا کرنیوالوں کی تعداد 4.5 فیصد، فرانس میں 58 فیصد اور کینیڈا میں 80 فیصد ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار دستاویزی معیشت کو رائج کرنے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر آج تک انکے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے اسی لئے ہمارے سالانہ بجٹ کا تقریباً 80 فیصد انحصار متوقع قرضوں، بھیک، امداد اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر ہوتا ہے جبکہ اگر ہم چاہیں توپاکستان کے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کرکے اور ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھاکراپنے ٹیکس ریونیو میں تین گنا سے زائد اضافہ کرسکتے ہیں اورسالانہ بجٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی بھی کرسکتے ہیں اور ملکی جی ڈی پی میں ٹیکس ریونیو کے حصے میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔
ٹیکسوں میں کم وصولی کی ایک بڑی وجہ خود ٹیکسوں کو وصول کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے کیونکہ مختلف معاشی ماہرین اور کئی حکومتی ارباب اختیار کے مطابق ایف بی آر کے ادارے میں 70 سے 93 فیصد افراد کرپٹ اور بدعنوان ہے اور سالانہ اربوں روپے کرپشن اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں ،جس کی وجہ سے ایف بی آر میں موجود افراد کی جیبیں تو بھاری ہوتی رہتی ہیں مگر سرکاری خزانے میں کمی واقع ہوتی ہے اور یہ ایف بی آرکے افراد کی ہی ملی بھگت ہوتی ہے جس کی وجہ سے جعلی انوائسنگ سے حکومتی خزانے کو اربوں روپے کا ناجائز بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ ایف بی آراور حکومتی ارباب اختیار تاجروں و صنعتکاروں کے سیلز ٹیکس کی مد میں انکے ریفنڈز دینے کی راہ روکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں جس کی وجہ سے تاجر وصنعتکار تنظیمیں مختلف فورمز پر اسکے خلاف آواز بھی اٹھاتی رہی ہیں۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کیمطابق بدعنوان افسران، کمزور نظام اور بدانتظامی کی وجہ سے ٹیکس کی مد میں پاکستان کو سالانہ 3.2 کھرب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔
ایف بی آر حکام کے مطابق موجودہ مالی سال کے جولائی سے اکتوبر کے چار ماہ میں ٹیکس ریونیو کی مد میں 1074 ارب روپے کی وصولیاں ہوئی ہیں جو گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے سے 20.4 فیصد زیادہ ہیں مگر یہاں یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ٹیکس کی یہ زائد وصولیاں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے سے نہیں بلکہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے ہے کیونکہ اس سال یکم نومبرکی رپورٹ کے مطابق 608,587 افراد نے ریٹرن جمع کرایا ہے جوکہ گذشتہ سال کی بانسبت 28 فیصد کم ہے جبکہ ذیادہ تر ٹیکس وصولیاںان ڈائریکٹ اور ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں ہوتی ہیں جن کی تعداد تقریباً 87 فیصد بنتی ہے جبکہ ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 750 ارب روپے کی وصولی بھی ہوئی ہے مگر اس اضافے سے حکومتی خزانے میں اضافہ تو ہوا مگرمہنگائی میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ دار طبقہ خود پر لگنے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کے اضافے کو صارفین پر منتقل کردیتے ہیں جو مہنگائی کا موجب بنتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ بھی ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں شامل کثیر تعداد جو تنخواہ دار طبقے کی ہے وہ ایک طرف تو اپنا ٹیکس باقاعدگی سے اداکرتے ہیں بلکہ انکی تنخواہوں سے کٹوتی کردی جاتی جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار بھی ان کے ناتواں کاندھوں پر آجاتی ہے۔
ٹیکسوں کی کم وصولی کی ایک وجہ وقتاً فوقتاً جاری ہونیوالی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں بھی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اربوں روپے کا ٹیکس بچاتے ہیں اور جب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جاتی ہے اس سے مستفیض ہوتے ہوئے انتہائی کم رقم کے عوض اپنا اربوں کا اثاثہ جائز کروالیتے جو کہ میری نظر میںسرکاری خزانے پر سراسرظلم ہے اور ان لوگوں کے ساتھ بھی ناانصافی جو اپنا ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ یہ معاشی ناہمواریاں ہی ہیں جو ملکوں کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا سبب بنتی ہیں جیسا کہ دنیا کی سپر پاور روس، یونان اور دیگر کئی ممالک اسکی زد میں آچکے ہیں اس لئے آج ضروری یہ ہے کہ ایف بی آر میںسنجیدگی کے ساتھ پائیدار اور مستقل معاشی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے حقیقی سزا و جزا کا تصور پیدا ہو اور ہر وہ شخص اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرے جو اسکے ذمہ آتا ہے اور اس کیلئے ہمیں بے ترتیب ٹیکس کے فرسودہ قوانین کو شفاف بناکر بدعنوانیوں اور کرپشن سے پاک نظام وضع کرنا ہوگا۔
اسی صورت میں ہمارا ٹیکس کا دائرہ کار بھی وسیع ہوگا اور پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس ریونیو کا حصہ بڑھے گا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت ترقی کریگی۔ یہ اچھی بات ہے کہ ایف بی آر کرپشن اور بدعنوانی کی روک تھا م کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہے جس کے تحت ایف بی آر افسران کو اپنے اثاثے ظاہرکرنے ہونگے اور انکے اکائونٹس کی جانچ پڑتال کی جائیگی۔ اگر اس منصوبے پر اسکی صحیح روح کے ساتھ عمل کیا گیا تو اس سے ناصرف بدعنوانی اور کرپشن پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ ٹیکسوں کی وصولیابی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن