ڈاکٹر صابر ایاز ملک
ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے اور کسی بھی معاشرے کی مثالی تعمیر و عمدہ تشکیل میں ماں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل مانا جاتا ہے۔ ماں صرف ایک خاندان کی محافظ ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی پرورش ماں کے احساسِ ذمہ داری کی مرہون ہے۔ ایک صحت مند ماں ہی صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ماں کا صحت مند ہونا لازمی اوربنیادی شرط ہے۔ہمارے یہاں عورت کی صحت پر کوئی خاص توجہ اور دھیان نہیں دیا جاتا یہی وجہ ہے کہ 13 ہزار خواتین دورانِ زچگی سالانہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔پڑھی لکھی ہونے کے باوجود اکثر خواتین اپنی ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتیں۔ہمارے دیہاتوں میں ان پڑھ دائیوں اور نیم حکیموں کی اکثریت حاملہ خواتین کو قبل از وقت موت کے سفر پر روانہ کردیتے ہیں۔ فی زمانہ میڈیا کی بہتات سے معلومات عام اور بر وقت پہنچ رہی ہیں علا وہ ازیں سرکاری سطح پر معلومات عام کرنے کے لیے ٹی وی اور اخبارات میں تواتر سے اشتہارات کے ذریعے عوام الناس کوآگاہی دی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5349 بنیادی مراکز صحت ،562 دیہی مراکز صحت اور 903 ماں اور بچہ صحت مراکز کا طبی عملہ عوام الناس کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہمہ وقت موجود ہے۔ہمارا مقصد حکومت کی ترجمانی کرنا قطعی طور پر نہیں ہے بلکہ اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ ہمارے یہاں طبی سہولیات کی فراہمی نہیں۔ہمارا المیہ یہ بھی ہے ایک خاص مائینڈ سیٹ اپ ہمارے ہاں کوئی ایسا شگوفہ چھوڑ تا رہتا ہے جس سے لوگوں میں سرکاری سطح پر فلاحی طبی بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے بد دلی پھیلتی ہے۔ خاندنی منصوبہ بندی ،پولیو ویکسین اورزچہ و بچہ کے حفاظتی ٹیکوں کے خلاف اس قدرپر زور مہم چلائی جاتی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی گمراہ ہوجاتے ہیں۔بطورِ ڈاکٹر میر ا ماننا تو یہی ہے کہ ماں و بچہ کی صحت ہو یا بے اولادی کے مسائل،اولاد نرینہ کی خواہش ہو یا تولیدی مسائل،شوگر کی تباہ کاری سے بچنا ہو یا بلڈ پریشر کے نقصانات سے حفاظت کرنا ہو۔دل بند ہونے کے ڈر کا خاتمہ کرنا ہو یا ہیپاٹائٹس کے حملے سے بچنا ہو۔ان سب مسائل کا آسان اور سستا حل صرف اور صرف صحت مند رہنے کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ہر معاملے پر حکومت کو بُرا بھلا کہنے،طعن و تشنیع کرنے اور کوسنے سے ہمارے یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ۔ کچھ لوگ تو ایسے معا ملات پر بھی حکومت کو بُرابھلا کہتے ہیں جن سے عملی طور پر حکومت یا حکومتی جماعت کا کوسوں دورکوئی واسطہ نہیں بنتا ۔چونکہ کیڑے نکالنے اور اپنی خرابیوں کو دوسر وں کے سر ڈالنے سے ہر مسئلے کی ذمے دار گویا حکومت ہی ٹھہرے گی۔ یہ علت ایک معاشرتی ہی نہیں بلکہ اخلاقی بیماری کاروپ دھارتی جا رہی ہے۔کسی کی مرغی انڈہ نہ دے توبھی حکومت کا قصور،کوئی بوسیدہ چھت تلے دب کر لقمہ اجل بن جائے تو حکومت کاجرم اور اگر کہیں پر اپنی جہالت کے بل بوتے کسی کا بچہ سر راہ یا رکشے میں پیدا ہوجائے تو حکومت وقت کی شامت؟بھلے لوگو!حکومت کا کام اپنے عوام کوطبی مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے صحت مراکز قائم کرنا ہے،ڈاکٹرز،نرسز اور طبی عملہ فراہم کرنا ہے۔اب اگر کوئی صحت مرکز میں جانا ہی نہ چاہے،حکومتی اقدامات سے فائدہ اٹھانا ہی نہ چاہے تو حکومت کیا کر سکتی ہے۔زچہ وبچہ ماہرین کے نزدیک جب ایک عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے ہر مہینے اپنی گائناکالوجسٹ سے مل کر معائنہ اور مشورہ کرناچاہیے۔چونکہ وجود کے اندر ایک دوسرے وجود کی تخلیق کاعمل شروع ہونے سے حاملہ خاتون کی غذائی ضروریات بدل جایا کرتی ہیں۔بچے کے وجود کی ساخت،اعضاء کی بناوٹ اور جسم کی پرورش با لواستہ طور پر ماں کی غذا سے ہوتی ہے۔لہٰذا زچہ کو دورانِ حمل ایک مکمل،متوازن اور بھرپور غذا کا استعمال کرنا چاہیے۔ایسی تمام سرگرمیاں جن سے بچے کی نشو ونما میں رکاوٹ،خرابی یا جزوی طور پر اعضاء میں نقص پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ترک کر دینی چاہیے۔اچھل کود،سیڑھیاں چڑھنے، سخت کام کرنے،بھاری وزن اٹھانے ،ناقص غذا کھانے،میاں سے ملاپ اور بلا وجہ یا اپنے معالج سے مشورہ کیے بغیر پین کلرز ،اینٹی بائیو ٹیک اور اسٹیرائیڈز کا با لکل استعمال نہیں کرنا چاہیے۔تمام موسمی سبزیاں،موسمی پھلوں کے جوسز بکثرت اور حسبِ گنجائش استعمال کرنے چاہیے۔آئرن،کیلشیم،فاسفورس،میگنیشیم،،پروٹینز،نشاستہ،وٹامنزاور مفید چکنائیوںسے بھرپور غذائیں استعمال کی جائیںدودھ،دہی،خشک میوہ جات،دالیں،گوشت اور ترکاریاں جی بھر کھائیں۔اپنی گائنا کالوجسٹ کی دی گئی ادویات،غذائی اور پرہیز کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جانا چاہیے۔ جب ایک حاملہ 9 مہینے متواتر لیڈی ڈاکٹر سے مشاورت کا عمل جاری رکھتی ہے تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ رکشے میں سرِ راہ ڈلیوری کا واقعہ پیش آئے۔یہ سب حفظانِ صحت کے طے شدہ اصولوں سے رو گردانی،دست یاب طبی سہولتوں سے استفادہ نہ کرنے اور اپنی جہالت پر قائم رہنے کا نتیجہ ہیں۔ایک اور وضاحت فی زمانہ آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا رجحان بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔یہ بھی شعور کی کمی،کسی معالج سے رابطہ نہ رکھنے اور مجرمانہ لاپرواہی کی وجہ سے ہی فروغ پا رہا ہے۔محلے کی ان پڑھ اورعطائی دایاں خواتین کو اپنی رام کہانیوں سے گمراہ کیے رکھتی ہیں جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تو زچہ کو کسی ہسپتال میں لے جایاجاتا ہے ،یوں ڈاکٹر کے پاس آپریشن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ وہی ڈاکٹر جو زچہ وبچہ کی زندگیاں بچانے میں سرتوڑ کوشش کرتا ہے اسی پر بعد ازاں لالچی ہونے کا الزام بھی عائد کردیا جاتا ہے۔نا خوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے حمل کی ابتدا سے ہی کسی ماہر گائنا کا لوجسٹ یا لیڈی ڈاکٹر ،سمجھدا ر نرس یا آیا وغیرہ سے رابطے میں رہا جائے۔ہمارے نزدیک زچہ وبچہ کی زندگیوں کی حفاظت اور کسی بھی قسم کے نا خوشگورا واقعات سے بچنے کے لیے عام افراد کو بھی آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔حمل ٹھہرتے ہی اپنے ڈاکٹر سے بنیادی معلومات حاصل کریں۔