نئے وزیر اعظم نے جب اپنے عہدہ کا حلف اٹھایا تو اس وقت یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی کہ ملک کے قرضے اور ادھار 83% (تراسی فیصد) سے تجاوز کرگئے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق 1971 ء میں پاکستان کا قرضہ اور ادھار 30 (تیس) بلین روپے تھا۔ نئی حکومت کے لیے سب سے اہم کام مالیاتی بد حالی کو درست کرنا تھا۔ اس کا پہلی حکومتوں کی طرح آسان کام IMF سے ان کی ناروا شرائط پر ادھار حاصل کرنا تھا۔ لیکن حکومت نے اس کی بجائے ایک مشکل لیکن بہتر طریقہ اپنایا کیا جوکہ دوست ممالک سے رقم ادھار پر لینا تھا تاکہ IMF جس پر امریکی" ڈان" کی اجارہ داری ہے کی ناروا اور سخت شرائط کے چنگل سے بچا جا سکے۔
اس ضمن میں سعودی عرب نے تعاون کیا اور 6 (چھ)بلین ڈالر کی رقم ادھار دی۔ بین الاقوامی اخبار AKD کے مطابق اس رقم سے حکومت پر مالی دباؤ جو کہ بیرونی ممالک سے لئے گئے قرضہ جات کی وجہ سے تھا کم ہوا۔ اسی طرح دیگر دوست ممالک سے ادھار لے کر معیشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ان مسائل کے نمٹا جاسکتا ہے۔ جو کہ ایم ایل(ن) کے دور میں لوٹ مار کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔
24 اکتوبر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 1566 (پندرہ سو چھیاسٹ)پوائنٹس کی بڑھوتی ہوئی جو کہ 4.13% (چار اعشاریہ تیرہ فی صد) ہے۔یہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے جوکہ ملکی تاریخ میں دوسری دفعہ ہوا ہے کیونکہ ملک کا KSE-100 انڈیکس ایک دن میں 1550 (پندرہ سو پچاس)پوائنٹس بڑھا۔
ایک بہت حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ وقتی طور پر External accounts پر اب دباؤ کم ہورہا ہے۔ نئی حکومت کی معاشی حکمت عملی تین اجزا پر مشتمل ہے۔
اول: معاشی پیداوار میں اضافہ جو کہ Housing اور زراعت کے ذریعے حاصل کیا جائے گا نیز برآمدات کے لیے مراعات کی فراہمی اور ملک میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ڈالر کی فراہمی جوکہ پاکستانی بینکوں کے اکاؤنٹس میں جمع ہونگے۔
پاکستان کا زرعی شعبہ جو کہ 600 (چھ سو) بلین ڈالر مالیت کا شعبہ ہے اس کی مالیت میں کافی کمی ہوئی ہے۔ اس شعبے کی ترقی کے لیے حکومت نے فوری طور پر زراعت کے لیے استعمال ہونے والے ٹیوب ویل کے Tariff میں 10.35 (دس اعشاریہ پنتیس)سے 5.35 (پانچ اعشاریہ پنتیس) فی یونٹ کمی کا اعلان کیا ہے یہ وہ اقدامات ہیں جن سے کسانوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا اور ملک جوکہ بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس شعبہ میں بہت ترقی کرسکے گا۔ پچھلے 5 سالوں میں پی ایم ایل (ن) کے دور میں ہماری درآمدات 25 (پچیس) ملین ڈالر سالانہ سے صرف بیس فی صد سالانہ رہ گئی تھیں۔ جبکہ اسی دوران بنگلہ دیش کی درآمدات 24 (چوبیس) بلین سے بڑھ کر 37 (سنتیس) بلین ہوگئی ہیں۔ پاکستانی برآمد کندگان کو جو شکایات ہیں وہ دو چیزوں پر مشتمل ہیں ۔ اولInput cost : اور دوسرے ان کے بے وجہ رکے ہوئے refund جوکہ حکومت نے ادا کرنے ہیں۔ یہ نتائج ابھی حل طلب ہیں ۔ بہر حال موجودہ حکومت (SPFW) Stratagic policy frame work. برائے 2018-23 پر کام کررہی ہے جس کا ہدف 46 (چھیالیس) بلین ڈالر ہے۔ بیرسٹر اظہر جوکہ وزیر Revenue یعنی آمدنی ہیں انہوں نے چند اچھے فیصلے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے مگر ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔
قارئین! پچھلے پانچ سالوں کے دوران ملک میں کی ادھار لینے کا سلسلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت کوشش کررہی ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے افراد کم از کم 20 (بیس)بلین ڈالر مزید بینکوں کے ذریعے ملک بھیجیں مگر ابھی تک اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔موجودہ صورت حال کو اگر دیکھا جائے تو وزیر اعظم کے دورہ چین سے ہماری معیشت پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر سعودی حکومت کی طرح چائینہ نے بھی ہمیں ادھار میں رقم دی تو شاید معاشی مسائل پر قابو پالیا جائے۔ تاہم حالات جو بھی ہیں اگلے چھ ماہ تک وطن عزیز اور عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس اُمید پر کہ حالات میں انشا اللہ خاطر خواہ بہتری آئے گی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔