الیکشن دست راست نہیں کارکردگی سے جیتے جاتے ہیں!!!!

گلگت بلتستان میں پندرہ نومبر کو انتخابات ہورہے ہیں وہاں تین بڑی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف سے وہ صاحب گلگت بلتستان میں اس انتخابی مہم کی قیادت کر رہے ہیں جنہیں خود علم نہیں ہوتا کہ وہ کب کہاں اور کس کے سامنے اور کیا بول رہے ہیں۔ وہ جب سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں ان کے پاس غیر شائستہ گفتگو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس الیکشن مہم میں وہ وذیر اپنی حکومت کے اقدامات عوام کے سامنے رکھنے کے بجائے صرف اور صرف سیاسی بیان بازی اور الزامات کا سہارا لے رہے ہیں۔ ان کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے زلفی بخاری وہاں پہنچے ہیں۔ یہ انتخابی مہم دیکھ کر ہمیں آئندہ انتخابات کی مہم نظر آتی ہے اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کیا کرے گی۔ پی ٹی آئی اکابرین کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ مستقبل میں جب کبھی انتخابات ہوں گے وہ کس بنیاد پر عوام کے پاس جائیں گے۔ گلگت بلتستان سے یہی سبق ملتا ہے عوام میں جانے سے پہلے ان کے ساتھ کیے گئے وعدے نبھائیں، عام آدمی کے مسائل حل کریں، عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کریں۔ اگر حکومت عام آدمی کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو انتخابی مہم کے لیے قریبی ساتھیوں کو بھجوائیں یا پھر پوری جماعت کو بھجوا دیں عوام مسترد کر دے گی۔ اس وقت کوئی زلفی بخاری، کوئی شیخ رشیدش کوئی جہانگیر ترین، کوئی شاہ محمود قریشی کام نہیں آئے۔ وہاں صرف کارکردگی بتانا پڑے گی۔ حکومت کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ سب سے بڑی انتخابی مہم عوام کی خدمت ہے۔ اگر خدمت کے شعبے میں نوے نمبر حاصل کر رکھے ہیں تو پھر عوامی سہولت کے منصوبے، ترقیاتی منصوبے ہی انتخابی مہم کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ بدقسمتی ڈے پاکستان تحریک انصاف کے وزراء  تو اچھی بھلی کارکردگی کا ستیا ناس کر دیتے ہیں۔ یہ کیسے عوام کو قائل کریں گے۔
دو سال سے زائد وقت گذر چکا ہے اس دوران حکومت کے پاس عوام کو بتانے کے لیے ضرور کچھ ہونا چاہیے تھا گلگت بلتستان انتخابات ان ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد پر ہی لڑنے چاہییں تھے۔ بدقسمتی سے یہ نہیں ہو سکا اور پی ٹی آئی یہ انتخابی مہم بھی ویسے ہی چلا رہی ہے جیسے وہ ملک کی حکمران جماعت نہیں بلکہ اپوزیشن جماعت ہے۔ حکومت کے آٹھ سو دنوں میں مہنگائی آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور حکومت گلگت بلتستان انتخابات میں اپوزیشن کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔ کوئٹہ میں روٹی تیس روپے کی ہو گئی ہے اور حکومت حزب اختلاف کے سیاست دانوں کی سرجری کا حساب لگا رہی ہے۔ آٹا نایاب ہے، چینی کی قیمت کسی کے قابو میں نہیں ہے، مرغی کا گوشت تین سو پچاس سے چار سو روپے کلو میں فروخت ہو رہا ہے، سبز مچ دو سو روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے، ادرک گوشت کے بھاؤ بک رہا ہے، دالیں بھی غریب کی پہنچ سے نکل گئی ہیں اور پی ٹی آئی گلگت بلتستان میں اپوزیشن پر تنقید کر رہی ہے۔ بجلی مہنگی ہو رہی ہے، سردی ابھی شروع نہیں ہوئی اور گیس کی قلت کی شکایات عام ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں عوام کو کیسے قائل کیا جا سکتا ہے۔  
ملک میں شادی ہالز بند کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں، شادی ہالز چلانے والے کہتے ہیں جیل چلے جائیں گے لیکن ہالز بند نہیں کریں گے اور حکومت اپوزیشن کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔ زرعی ملک میں گندم کی قلت پیدا ہو گئی، چینی نایاب ہو گئی، آٹا چاولوں کے بھاؤ ملنے لگا ہے اور پی ٹی آئی کے وزراء  آج بھی ٹی وی پر آ کر اپوزیشن کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ حالات عام انتخابات میں کسی بھی صورت کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ 
وزیراعظم عمران خان اگر ان حالات کو دیکھ رہے ہیں یا آئندہ انتخابات ان کے ذہن میں ہیں تو پھر انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ عملی طور پر ان کی حکومت کے پاس کتنا وقت ہے، آخری سال کو عملی طور پر ترقیاتی کاموں سے نکال دیں کیونکہ آخری برس بہت زیادہ کام ممکن نہیں ہوتا۔ ان بارہ ماہ کو نکال دیا جائے تو باقی دو سال بھی پورے نہیں بچتے ان دو برسوں میں حکومت کتنے منصوبے شروع کرے گی، کتنے مکمل کرے گی، کتنے ادھورے چھوڑے گی اور کتنے نئے منصوبوں کا اعلان کرے گی۔ میگا پراجیکٹس کو چھوڑ بھی دیا جائے تو مہنگائی قابو کرنا ہی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ اگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو عوامی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا پھر ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ بھی نبھانا ہے۔ حکومتی اقدامات، وزراء￿  کی بیان بازی، وزارتوں کی کارکردگی دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ وہ آئندہ عام انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں یا ان کے ذہن میں بھی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر عوام کے پاس جانا ہے۔ 
حکومت خوش قسمت تھی کہ اسے امن و امان کے حوالے سے بہتر پاکستان ملا، یہ درست ہے کہ قرضوں کا جال تھا، معیشت کمزور سہاروں پر تھی لیکن ان خامیوں کے باوجود مہنگائی، غربت اور بیروزگاری پر قابو پانے کے لیے جس فکر، لگن، دلجمعی، جوش و جذبے، محنت اور شعور کی ضرورت تھی حکومت اس پر پورا اترنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ مشکل وقت میں بروقت بہتر فیصلے نہیں کیے گئے، بہتر افراد کو ذمہ داریاں نہیں دی گئیں، جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ جنہیں عوام کے مسائل کا کچھ علم ہے انہیں ترجمانی پر لگا کر عوام کے زخموں پر مسلسل نمک چھڑکا جا رہا ہے۔ غیر منتخب اور عام آدمی سے میلوں فاصلہ رکھنے والوں کو اہم شعبوں میں حقیقی سیاسی کارکنوں کو دیوار سے لگانے کے نتائج حکومت آج بھی بھگت رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے شدید نقصانات کا سامنا پاکستان تحریک انصاف کو کرنا پڑے گا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے بورڈ میں چار آزاد ڈائریکٹرز کو شامل کرتے ہوئے
 ایسے خوشی سے نہال ہیں جیسے وہ عالمی کپ جیت آئے ہوں۔ فخریہ انداز میں بتایا جا رہا ہے کہ پہلی مرتبہ ایک خاتون ڈائریکٹر بورڈ کا حصہ بنی ہیں جس طرح انہوں نے چاروں ڈائریکٹرز لگائے ہیں اس انداز میں تو آپ آٹھ کی آٹھ خواتین کو بھی شامل کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اگر بارہ نالائقوں کو بھی جمع کرنا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ منتخب افراد کو نکال کر من پسند افراد کو شامل کر لیا گیا ہے جنہیں کرکٹ کے انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں، کوئی ہیومن ریسورس کا ماہر ہے تو کوئی بیرون ملک بینک میں کام کر رہا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں کیا ملکی کرکٹ میں ہیومن ریسورس اور فنانس کے ماہرین کی کمی ی ضرورت ہے۔ سینکڑوں کرکٹرز بیروزگار ہو گئے ہیں، کھیل کے مواقع کم اور معمولات زندگی متاثر ہوئے لیکن بورڈ ایسے بتا رہا ہے جیسے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ پاکستان کرکٹ کو احسان مانی اینڈ کمپنی سے بچانے کی ضرورت ہے۔ دو سال سے ملک میں ہر طرح کی کرکٹ بند ہے۔ جیسے ڈائریکٹرز کا انتخاب عمل میں آیا ہے ویسے ہی ٹیمیں ذاتی پسند نا پسند پر بن رہی ہیں۔ انہیں  اصلاحات کے لیے لایا گیا تھا یہ تباہی کا عمل تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ ان سے نہیں سنبھل رہی۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا انہوں نے بیڑہ غرق کر دیا ہے اب انتظامی تباہی کے سفر پر نکلے ہیں۔ اچھے بھلے کرکٹرز معمولی ملازمتوں پر مجبور ہیں دوسری طرف بورڈ میں لاکھوں ماہانہ تنخواہوں پر بھرتی جاری ہے۔ کرکٹ کھیلنے والے خوار ہو رہے ہیں اور جنہوں نے کرکٹ کا نظام چلانا ہے ان کے وارے نیارے ہیں۔ جو کمانے والے ہیں وہ محدود ہو رہے ہیں اور جنہوں نے کمائی کھانی ہے ان کے مواقع بڑھ رہے ہیں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

   

ای پیپر دی نیشن