میری قوم کا اقبال کہیں کھو گیا ہے !! 

اللہ تعالی کا یہ عجب نظام قدرت ہے کہ جہاں ہر شخص اس دنیا میں آتا ہے جانے کے لئے وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کانام مر نے کے بعد بھی افق پہ روشن ستارے کی طرح جگمگاتا رہتا ہے ایسی ہی عظیم ہستی جس نے نہ صرف پاکستان کا تصور پیش کیا، بلکہ اس تصور میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا علامہ اقبال کی ہے جن کا دو دن قبل یو م پیدائش نہایت خاموشی سے گزر گیا ۔ ہم نے اقبال کے اس خواب جس کی تعبیر میں ہمارے بزرگوں نے اپنا تن، من، دھن سب قربان کر دیا، کا وہ حال کیا کہ روح اقبال آج اس وطن کا حال دیکھ کے تڑپتی ہو گی ۔ ہم سب اس روشن خواب کی اتنی بے رنگ اور کرب ناک تعبیر کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ وطن تو حاصل کر لیا لیکن وطن کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکے اور اب تو اپنی قوم کے محسنوں کو بھی بھولتے جا رہے ہیں ۔ 
 پاکستان علامہ اقبال کا اک روشن خواب جس کا تخیل آپ نے 1930 خطبہ الہ آباد میں پیش کیا۔ جس میں آپ نے نہ صرف ہندوستان کے حالات، مسلمانوں کی مشکلات اور ان کے مسائل دنیا کے سامنے رکھے بلکہ جداگانہ وطن کا تصور ایک قرار داد کی شکل میں پیش کر کے مسلمانان ہند کی منزل کی نشاندہی بھی کی۔ آپ محض شاعر نہیں تھے بلکہ اپنے عہد کے وہ منفرد مفکر تھے جو بیک وقت فلسفی بھی تھے اور صوفی بھی، جنہیں لوگ قلندر بھی کہتے ہیں اور عاشق رسول بھی۔ جو ترجمان حقیقت بھی کہلاتے ہیں اور حکیم الامت بھی جن کا لقب مصور پاکستان بھی ہے اور مفکر پاکستان بھی یہی وجہ ہے کہ آپ آج تاریخ کے اوراق میں بہت سے ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
آپ نے جس الگ وطن کا خواب دیکھا تھا اس کی خاکہ کشی آپ نے اپنے 1930 کے خطاب میں نہ صرف کی بلکہ اس کی اہمیت پہ بھی روشنی ڈالی آپ نے اس خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، دستور حیات ہے اور ایک نظام ہے۔ اسلام ایک طاقت ہے اور یہ ہی طاقت انسان کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دلا سکتی ہے۔ یورپ میں مذہب ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن اسلام ایک وحدت ہے یہ چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ پھر آپ نے فرمایا ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان بستے ہیں اور ان میں دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہم آہنگی ہے۔ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں بھی اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔۔
مسلمانوں کے ہر با شعور طبقے نے آپ کے اس منشور کا خیر مقدم کیا اور آخر کار بر صغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آپ کے خواب کو سچ کر دکھایا۔ 14اگست1947 کو اس سرزمیں پر آزادی کا سورج طلوع ہوا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آگیا جس کا نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کا مطالبہ ہم نے صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہمیں ایک تجربہ گاہ کی ضرورت تھی جہاں ہم اپنے اسلامی اصولوں کو اپنا سکیں‘‘ قائد اعظم کی آرزو جس کے لئے انہوں نے رت جگے کاٹے اپنی ذات کو حصول پاکستان کے لئے قربان کر دیا وہ ایک اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ پاکستان تو بن گیا لیکن یہ وہ پاکستان تو نہ تھا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جسے قائداعظم نے تکمیل تک پہنچایا افسوس کے اس ملک کی تقدیر ایسے ہاتھوں میں آ گئی جو ہر موقع پر اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے رہے اور آخر کار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ ملک دو لخت ہو گیا لیکن ہم پھر بھی نہ سدھر سکے اور آج ہم حالات کی اس کڑی دھوپ میں کھڑے ہیں جہاں دور دور تک کوئی نخلستان دکھائی نہیں دیتا۔ آنے والا وقت بہاروں کا نقیب ہونے کی بجائے خزاں کی آمد کا اعلان کر رہا ہے۔ بے گناہ لوگوں کا خون سڑکوں پر بہایا جا رہا ہے۔ اسلام کے نام پہ بنے اس ملک میں آج لوگوں کا زندہ رہنا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ ہزاروں لوگ حرام کی موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ اخلاقی، مذہبی، معاشرتی کون سی ایسی برائیاں ہیں جو ہمارے وجود کو گھن کی طرح نہیں چاٹ رہیں، مسجدوں سے ا للہ اکبر کی آوازیں گونجنے کی بجائے لاشے نکل رہے ہیں۔ کسی کو جان، مال، عزت کا تحفظ نہیں، عورتوں کی عزتیں سر بازار لٹ رہی ہیں، ہر سہولت ضروریات زندگی صرف ان نام نہاد شرفاء کو میسر ہیں جو دونوں دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ ہر گلی میں لوگ بکنے کو تیار کھڑے ہیں۔ ملکی وقار عزت داؤ پر لگائے حکومت ہماری غیروں کے ساتھ سودے بازیوں میں مصروف ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہم سے دور ہو چکی ہے۔ کفار ہم پہ اس حد تک غلبہ پا چکے ہیں کہ اسلام کی تشریح بھی اب نئے پیمانوں پر دشمنان اسلام کے ہاتھوں ہونے لگی ہے۔ 
اقبال کا خواب جو وطن تھا وہ خواب پاکستان کے بن جانے کے 72 برس بعد بھی ادھورا ہے اور اس کا
 قصور وار کون ہے؟ اگر ہم سب اپنے گریبانوں میں جھانک کے دیکھیں اور اپنے آپ کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں تو کوئی بھی ہاتھ بے داغ نہیں دکھائی دیتا ہر دامن پہ لہو کے چھینٹے ہیں۔ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس کے ہم سب قصوروار ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے۔ حالات ہماری دسترس میں آ سکتے ہیں اگر ہم علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے اپنے محسنوں کونہ صرف یاد رکھیںبلکہ اس ملک کو ان کے خوابوں کے مطابق ڈھال کے ان کی محبت اورجدوجہد کا قرض ادا کر یں۔  

ای پیپر دی نیشن