اویس نورانی کی زبان پھسلی اور میرا قلم پھسل گیا

Nov 11, 2020

اسد اللہ غالب

 ایک فاش غلطی کی درستگی کے لئے لکھے گئے کالم میں میرا قلم پھسل گیا اور ایک ایسا بلنڈر ہو گیا کہ لینے کے دینے پڑ گئے۔
نوائے وقت کے دیرینہ ساتھی سلطان اسکندر نے صبح سویرے پیر اعجاز ہاشمی کو فون پر بتایا کہ کالم نگار کی یادداشت تو قابل رشک ہے مگر لگتا ہے حافظہ کمزورہوگیا ہے۔ ایک  نہیں کئی فون مجھے بھی سننے پڑے اور بہت کچھ سننا پڑا کہ آخر تم نے مسلکی دیانت کا ثبوت نہیں دیا ۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ غلطی ہوئی تو کیا ہوئی۔ اخبار پکڑا اور کئی بار کالم پڑھا آخر یہ راز کھلا کہ مسلکی طعنہ دینے والے سچ ہی بول رہے ہیں۔ میںنے جے یو پی کی بجائے تین چار دفعہ جے یو آئی لکھ دیا، ان جماعتوں کے مابین بعد المشرقین  ہے۔ اگرچہ اب پی ڈی ایم کے چھاتے تلے اکٹھی ہیں مگر مسلک الگ الگ  اور میں دیانت داری سے کہتاہوں کہ میرا مسلک ان دونوں سے جدا  مگر قصور میرے حافظے کا ہے ورنہ میری جس قدر دوستیاں جے یو پی کے ساتھ ہیں اس قدر ساجد میر کی پارٹی سے نہیں، ساجد میر میرا فون نہیں سنتے ، انکا  سیاسی مسلک اس وقت وہی ہے جو نون لیگ کا ہے ، یہ  ان سب کی بھول ہے۔بلکہ بھولپن ۔ اخبار نویس کی کوئی سیاسی پارٹی یا کوئی مذہبی مسلک نہیںہوتا ۔میںنے اپنے کالم میں لکھا کہ دائود غزنوی  پنجاب کانگرس کے صدر تھے۔ اس سے اس جماعت والوں کی د ل ا ٓزاری ہوئی تو ہو گی مگر میں تاریخ بدلنے سے قاصر ہوں۔
 میرے والد گرامی کا نام عبدالوہاب ہے اور وہ خالص مسلم لیگی اور قائد اعظم کے ساتھیوںمیں سے تھے۔ میںنے اس بات کا کبھی ڈھنڈروا نہیں پیٹا کہ میںنے اپنے والد کی سیاست کو کیش نہیں کرانا تھا۔ وہ مسلم لیگ گارڈز کے سالارتھے اور ایک تھری ناٹ تھری رائفل اور دونالی بندوق سے مسلح تھے۔ سن اکاون میں فوت ہوئے تو پولیس سٹیشن والوں نے یہ اسلحہ ضبط کر لیا، کیوں کیا، میں تین سال کا بچہ اس کی وجہ نہیں جانتا۔
میںنے مولانا شاہ ا حمد نورانی ا ور مولانا عبدالستار نیازی سے نیاز مندی کی تفصیل بیان کی اور یہ لکھا کہ میرے گھر کی بنیاد مولانا نیازی نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔انہوںنے میرے ایک کلاس فیلو صادق قصوری سے ایک بار حیرت سے پوچھا کہ اسداللہ نے اپنے گھر کی بنیاد مجھ سے رکھوائی ہے اس پر صادق قصوری نے انہیں بتایا کہ اسداللہ ہر مسلک سے بالا تر ہے اس لئے آپ حیران نہ ہوں، جتنی ذاتی باتیں میں مولانا نیازی سے کرتا تھاا تنی کسی سیاست دان یا مذہبی عالم سے نہیں کیں، وہ  ایک باغ بہار اور دلکش شخصیت تھے اورمولانا نورانی کے قہقہے تو آج بھی میرے قلب و ذہن میں گونج رہے ہیں۔ وہ دوسروں کے  لئے اجنبی ہوں گے مگرمیرے تو محترم دوست تھے۔
میںنوائے وقت کا میگزین ایڈیٹر تھا کہ ایک پیر صاحب تشریف لائے ۔کہنے لگے کہ وہ  پیر جماعت علی شا ہ کی اولاد سے ہیں،انہوںنے مجھے اپنے ساتھ نارووال ان کے  دربارپر چلنے کی دعوت دی۔میں فوٹو گرافر مرحوم اختر علی اور فوٹو لائیبریرن محمد اسلم کو اپنی ایف ایکس سوزوکی میں بٹھا کے وہاں گیا، ہم نے پیر صاحب کے مقبرے پر حاضری دی، دعا کی اور وہاں ایک کتبہ پڑھا جس پر لکھا تھا  کہ پیر جماعت علی شاہ نے سرسید احمد خان کو تعلیمی ادارہ بنانے کے لئے ایک لاکھ روپے کا ہدیہ پیش کیا تھا ، یہ آج اربوں کھربوں بنتے ہیں کتبے پر ایک نکتہ یہ بیان کیا گیا تھا کہ مسجد شہید گنج کا جلوس نکلا توا س کی قیادت پیر جماعت علی شاہ نے فرمائی ا ور علامہ اقبال پیچھے چل رہے تھے۔
تونسہ شریف کے ایک گدی نشین  پیر عطا ء اللہ تونسوی سے میرا اس قدر قریبی تعلق قائم ہوا کہ نوائے وقت میں نعتیہ مشاعرے کی صدارت کے لئے انہیں زحمت دی ۔ یہ محفل رات بھر جاری رہی اور یوں لگ رہا تھا کہ نوائے وقت کا دفتر رنگ و نور سے روشن ہو گیا ہے۔
اب جو کالم لکھا تو بھول ہی گیا کہ اکابرین اہل سنت کی جماعت کانام جمعیت علمائے پاکستان ہے جبکہ میں نے جے یو آئی یعنی جمعیت علمائے اسلام لکھ دیا جو کہ جمعیت علمائے ہند کی شکل  ہے۔اور قائد اعظم اور آل ا نڈیا مسلم لیگ کی سخت مخالف مگراس میں سے مولانا شبیر احمد عثمانی قائد اعظم کے جانثاروںمیں سے تھے،مگر حسین احمد مدنی کے بارے میں جو کچھ علامہ اقبال نے ایک رباعی میں لکھ دیا میں اسے یہاںنقل نہیں کر سکتا۔
 اہل سنت قائد اور آل ا نڈیا مسلم لیگ کے حامی اور اہل دیو بند کانگریس کی سیاست کے حامی۔ میں آج کے تناظر میںاس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہوں ۔ آج ہم سب پاکستانی ہیں اور ہماری سیاست اہل پاکستان کے تابع ہے اور پاکستان کے عوام کے لئے ہے کوئی کسی نام سے سیاست کرے ، دوسرا کسی  اورنام سے سیاست کرے،اس سے فرق نہیں پڑتا۔ مگر میرے قلم سے سہو ہوا جسے فوری درست کرنا ضروری تھا تاکہ میری نیت پر شک نہ کیا جائے، نظر تو ختم ہو چکی اگر حافظے کا حال بھی یہی رہا تو کیا لکھنا ۔روز روز قلم کی پھسلن سے کسی گہری کھائی میں گر سکتا ہوں۔
مجھے اس امر پر تشویش ہے کہ ہم مسلکوں کے چکر میں پڑے ہیں جبکہ ہمارے دشمن ہمیں صرف مسلمان سمجھے ہیں۔ الحمد للہ میں بھی انہیں مسلمانوں میں سے ایک ہوںِ ہر مسلک سے بالا تر۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں