خطے میں مضبوط دفاعی بلاک کی تشکیل کے امکانات 

Nov 11, 2020

اداریہ

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے چینی سفیر کی ملاقات :  پاک چین تعلقات کو مزید بہتر بنانے کا عزم 
 پاکستان میں چین کے نئے سفیر لونگ رونگ نے گزشتہ روز جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی سٹاف چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق دوران ملاقات باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی سلامتی کے معاملات پر تبادلہ خیالات کیا گیا۔ ملاقات میں پاکستان اور چین کے درمیان غیر معمولی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کا عزم کیا گیا۔ مہمان سفیر نے خطہ میں تصادم روکنے کیلئے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور اسکی تعریف کی۔
چینی سفیر لونگ رونگ نے پاکستان آتے ہی نوائے وقت کیلئے ایک کالم تحریر کیا جس میں ان کا پاکستان سے لگائو واضح ہوتا ہے اور وہ پاک چین دوستی کو مزید مضبوط بنانے کیلئے پرعزم نظر آئے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں پاکستان اور چین کے آہنی بھائی (Iron brother) ہونے کی چین میں مروجہ اصطلاح بھی استعمال کی۔ بلاشبہ پاکستان چین ہر آزمائش کی گھڑی میں ایک دوسرے کے اعتماد پر پورا اترے ہیں۔ کبھی سوویت یونین اور امریکہ برابر کی سپرپاور تھیں‘ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو چین اسکی غیرمحسوس طریقے سے جگہ لینے لگا۔ آج وہ امریکہ کے مقابل کی معاشی اور دفاعی طاقت بن چکا ہے۔ امریکہ کا دنیا کی واحد سپرپور ہونے کا تصور دھندلا رہا ہے۔ چین کا معاشی اور دفاعی حوالے سے منزلیں مارتے چلے جانا امریکہ کیلئے سوہان روح ہے۔ وہ اسکے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ ٹرمپ کے صدر ہوتے ہوئے امریکہ چین تعلقات کشیدگی میں بدل چکے تھے۔ ٹرمپ نے پاکستان کی قیمت پر چین کے سامنے بھارت کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ وہ خطے کی سپرپاور بننے کی خوش فہمی کے نشے میں چین کے سامنے دم پر کھڑا ہوگیا اور چین سے درگت بنوالی۔ چین نے خطے میں بھارت کے طاقتور بننے کا خواب چکناچور کردیا۔ ٹرمپ بھارت کو تھپکی دیتے رہے۔ اسے جدید دفاعی ٹیکنالوجی‘ آلات اور جنگی ہتھیار فراہم کئے۔ جدید ہیلی کاپٹر اور ڈرونز کی فراہمی کے معاہدے بھی بھارت کے ساتھ ہوچکے ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں طاقتور بنانا چاہتا ہے۔ بھارت چین کے سامنے کھڑا ہونے سے گھبراتا ہے۔ وہ چین کو سبق سکھانے کے نام پر امریکہ سے اسلحہ و وسائل حاصل کررہا ہے جو پاکستان کیخلاف ہی استعمال ہو سکتا ہے۔
 امریکہ نے پاکستان کی دوستی اور خصوصی طور پر افغان وار میں پاکستان کے کردار اور قربانیوں کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ پاکستان پر کبھی اسلحہ کی فراہمی کی پابندیاں عائد کی گئیں اور کبھی کولیشن سپورٹ فنڈ میں کمی کی‘ کبھی سرے سے روک دیا گیا۔ بھارت ایٹمی دھماکے کرے تو اعتراض نہیں‘ پاکستان اپنے دفاع کیلئے جواب میں دھماکے کرے تو پابندیوں کا مستوجب۔ یہی امریکی دوغلہ پن خطے کیلئے خطرناک بنتا جارہا ہے۔ افغان وار میں اپنی استعداد سے بڑھ کر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرکے وہاں بھارت کو گھسا دیا گیا جو اب تک افغان سرزمین میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف سازشیں کررہا ہے اور یہاں دہشت گردی کا کھیل کھیل رہا ہے جس سے امریکہ نے ہمیشہ صرف نظر کیا۔ ٹرمپ دور پاکستان کیلئے عمومی طور پر ایک بھیانک خواب کی مانند رہا۔ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں بھی ٹرمپ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے کرتے رہے۔ بھارت ہی کے ایماء پر امریکہ نے پاکستان کی سی پیک کا حصہ بننے کی مخالفت کرتے ہوئے اور اس منصوبے سے نکلنے پر زور دیا۔ امریکہ چین کی طرح کا پاکستان کیلئے منصوبے بناتا اور بھارت کو اسکی اوقات میں رکھتا‘ مسئلہ کشمیر حل کرادیا ہوتا تو پاکستان کا جھکائو امریکہ ہی کی طرف ہوتا۔ جبکہ اس نے پاکستان کے سب سے بڑے ازلی دشمن بھارت کی مدد کی۔ 
پاکستان کا ہمیشہ سے زیادہ تر دفاعی انحصار امریکہ پر رہا ہے۔ امریکہ کو پاکستان کے بدترین دشمن سے ریشہ خطمی ہوتا دیکھ کر پاکستان کا دفاعی معاملات میں رجحان چین کی طرف ہوگیا۔ اس تعاون کی بدولت آج پاکستان کے پاس جدید جے ایف تھنڈر 17 ہیں جو کمرشل بنیادوں پر پاکستان میں ہی تیار ہو رہے ہیں‘ انہی جہازوں کے ذریعے بھارت کے جدید فائٹر مار گرائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک سے ونگ کمانڈر ابھی نندن کود گیا جو پاکستان کے ہتھے چڑھ گیا۔ جوبائیڈن دنیا کو پرامن دیکھنے کے متمنی ہیں‘ امید ہے کہ وہ ایسے تنازعات طے کرانے میں اپنا کردار ادا کرینگے جو دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ان میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں۔ 
یہ بھارت کی بدمعاشی ہے کہ کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے جو تقسیم ہند کے اصول و ضوابط کے تحت مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کے باعث پاکستان کا حصہ تھا۔ بھارت جواز پیش کرتا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق کر دیا تھا‘ ایسا ہی الحاق حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کی ریاستوں نے بھی پاکستان کے ساتھ کیا تھا جن پر بھارت نے قبضہ جمالیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے   نواب آف جونا گڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی نے کہا کہ 15 ستمبر 1947 کو نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ جوناگڑھ پہلی شاہی ریاست تھی جس نے پاکستان سے باقاعدہ الحاق کیا۔ جونا گڑھ پہلا پاکستانی علاقہ ہے جس پر بھارت نے قبضہ جمایاجونا گڑھ قانونی طور پر اب بھی پاکستان کا حصہ ہے جونا گڑھ کا کیس ابھی بھی اقوام متحدہ میں دائر ہے جونا گڑھ ابھی انصاف کا منتظر ہے ۔ ریاست جوناگڑھ کا مقدمہ قانونی طور پرمضبوط ہے پاکستان اسکی پیروی کرے۔
امریکہ‘ برطانیہ اور اقوام متحدہ نے کبھی مسئلہ کشمیر سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا گیا۔ ٹرمپ تو کھل کر جارح بھارت کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ ان حالات میں پاکستان کا چین کی طرف دیکھنا فطری امر تھا۔ روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی۔ ماضی کی تلخیاں فراموش کردی گئیں‘ آج پاکستان اور روس کے مابین جنگی مشقیں ہو رہی ہیں جو دوستی میں مضبوطی اور باہمی اعتماد کی عکاس ہیں۔ ادھر ایران کے وزیر خارجہ گزشتہ روز پاکستان پہنچ گئے۔ امریکہ‘ ترکی کو روس سے ایس 400 دفاعی سسٹم خریدنے سے منع کررہا ہے۔ ترکی اس سسٹم کا حصول اپنے دفاع کیلئے ناگزیر سمجھتا ہے۔ اس منظرنامے میں خطے میں ایک دفاعی بلاک ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے جس میں چین‘ پاکستان‘ روس‘ ایران اور ترکی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس دفاعی بلاک کی طرف ان ممالک کو امریکہ دھکیل رہا ہے۔  

مزیدخبریں