سردیوں میں کرونا کی پانچویں لہر بھی آسکتی ہے: فیصل سلطان
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت خدا جانے کیوں عوام کو خوفزدہ کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اب موصوف فرما رہے ہیں کہ سردیوں میں کرونا کی پانچویں لہر بھی آسکتی ہے۔ خدا خیر کرے ان کے منہ سے بد کلمات سن کر تو جو لوگ کرونا سے بچ سے گئے تھے‘ وہ پریشان ہو گئے ہیں کہ کیا پتہ یہ پانچویں لہر ان کیلئے آرہی ہو۔ کم از کم آدمی کو بولتے ہوئے تو اچھا اچھا بولنا چاہئے۔ یہ کیا کہ جب بھی منہ کھولا‘ کچھ بولا دوسرے کی جان ہی نکال دی۔ اب پہلے چار لہروں نے کیا آفت مچائی تھی کہ اب یہ پانچویں لہر آکر رہی سہی کسر بھی پوری کر دے گی۔ جو لوگ پہلے بھی متاثر ہو چکے ہیں‘ سابقہ تجربہ کی وجہ سے ان کے بھی رنگ اُڑے ہوئے ہیں کہ انہیں کہیں پھر کچھ نہ ہو جائے۔ جن لوگوں نے ویکسینیشن کروائی ہے وہ تو قدرے اطمینان سے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ویکسینیشن سے کام نہیں چلتا۔ سماجی فاصلہ اور ماسک پہننا ان کیلئے بھی ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں عالمی ادارہ صحت کی طرف سے خبر ملی تھی کہ اب کرونا کی گولیاں بھی دستیاب ہیں۔ جو لوگ انجکشن سے ڈرتے ہیں‘ وہ بزدل گولیاں بھی کھا سکتے ہیں۔ امید ہے جلدہی یہ گولیاں بازار میں دستیاب ہونگی۔ بس خدا کرے کہ یہ وباء دوبارہ سر نہ اٹھائے۔ عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر اس نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب لوگوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس کے مزید وار سہہ سکیں۔ ویسے بھی اب بچا ہی کیا ہے کسی کے پاس۔ مالی نقصان‘ جانی نقصان پہلے ہی بہت ہو چکا ہے۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں ڈاکوئوں کا 10 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا‘ ایک روز میں 68 وارداتیں
یہ ہے لاہور پولیس کی اعلیٰ کارکردگی۔ اب تو ریکارڈ بتا رہا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ نجانے کتنی محنت کے بعد یہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ اگر ایمانداری سے ریکارڈ جمع کیا جائے‘ ان کو بھی شامل کیا جائے جن کی رپورٹ درج نہیں ہوئی یا جن کا لٹنے والوں نے پولیس کے رویہ کے خوف سے اظہار ہی نہیں کیا۔ اس حساب سے تو نجانے ہر سال کتنے ریکارڈ ٹوٹتے اور کتنے قائم ہوتے ہیں۔ اب چوری کو ہی دیکھیں روزانہ نجانے کتنی وارداتیں ہوتی ہیں مگر ریکارڈ صرف موٹرسائیکل اور کاروں کی چوری کا درج ہے جو گزشتہ روز 150 تھا۔ اس صورتحال پر عوام جائیں تو جائیں کہاں۔ ہر طرف ڈاکوئوں اور چوروں کا راج ہے جو پولیس والوں کو میرے آنگنے میں تمہارا کیا کام ہے کہہ کر ان کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ شاید ان ڈاکوئوں اور چوروں کو پولیس والے اپنا بھائی بند سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف کوئی بڑا ایکشن نہیں لیتے کیونکہ کیا معلوم ان کی وجہ سے بہت سے پولیس والوں کی دال روٹی ( جسے عیاشی بھی کہہ سکتے ہیں) چل رہی ہو اور کون چاہتا ہے کہ اس کی دال روٹی بند ہو۔ لوگ تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ ہر واردات میں پولیس والوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ جو اطمینان سے انہیں ملتا ہے۔ اس صورتحال میں کس کو پڑی ہے کہ وہ ان نان سٹاپ وارداتوں پر قابو پانے کا سوچے۔ اس لئے فی الحال نجانے کب تک لاہور والوں کو ان نان سٹاپ وارداتوں کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا اور کاغذوں میں سب اچھا کی رپورٹ حکومت کو اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو ملتی رہے گی۔ اب اس صورتحال کا علاج کون کرے گا۔
٭٭٭٭٭
سراج الحق کی پانامہ اور پنڈورا لیکس میں شامل افراد کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست
لگتا ہے میرے ملک میں سیاسی طوفان ازخود آتے ہیں، ہمارے سیاستدان ایسی کوئی نہ کوئی بات کرتے رہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے سیاسی تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی میں دیر تک ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور سیاسی ماحول میں ہلچل مچی رہتی ہے۔ اب پانامہ لیکس اور پنڈورا لیکس نے جو ہمارے ماحول میں ادھم مچایا ہے اس کے میں تھوڑا سا ٹھہرائو آیا ہی تھا کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بے شک نیکی نیتی سے ہی اس بارے میں عدالت سے رجوع کیا ہے مگر سب جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کب نکلے گا۔ ہاں البتہ جب تک یہ کیس زیرسماعت رہے گا میڈیا پر خوب نمک مرچ لگا کر اس پر تبصرے ہوں گے پروگرام ہوں گے۔ پانامہ لیکس کا نتیجہ اب تک صرف مسلم لیگ ن ہی بھگت رہی ہے۔ پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر زیرعتاب آتی ہے مگر کسی نہ کسی موقع سے فائدہ اٹھا کر زیرعتاب ہونے کے باوجود نکل جاتی ہے۔ اب پنڈورا لیکس میں جن کے نام ہیں ان پر ہاتھ کون ڈالے پہلے ہی سیاسی، کرپشن اور نجانے کون کون سے کیسز عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ بہتر ہوتا یہ معاملات پارلیمنٹ میں اٹھائے جاتے اور ان معاملات میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنایا جاتا مگر بات وہی ہے کہ خود پارلیمنٹ میں بھی یہی سب بیٹھے ہیں تو پھر عدالت کے سوا
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں
درد بھرے دل کی زباں
٭٭٭٭٭
نیمبیا سے جیت بھی کام نہیں آئی، بھارت کرکٹ ٹیم ایونٹ سے آئوٹ
چلیں جی پاکستان کو کرکٹ کی دنیا سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے والا اور اس کوشش میں اس کا ساتھ دینے والے اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے سب ایک ہی ہلے میں خود ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے میلے سے باہر ہوگئے۔ سچ کہتے ہیں جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں وہ خود ہی اس میں گرتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کو ہرانا بے شک خوشی کی بات ہے مگر اس سے زیادہ خوشی اس بات پر ہے کہ سکاٹ لینڈ کی ہار نے بھارت کی کرکٹ ٹیم کو واپس گھر کی راہ دکھا دی ہے۔ گزشتہ روز نیمبیا سے جیت بھی بھارت کے کسی کام نہ آسکی اور بھارتی ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی۔ اب کوہلی اپنی ٹیم کو ان کے بوجھ سمیت اٹھائے واپس بھارت جارہے ہیںجہاں ان کا ایسا سواگت ہوگا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اس دبئی ٹی ٹونٹی کی بدولت پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اس کے میدان کھیل کیلئے محفوظ ہیں جہاں کھیلنے سے بھاگنے والے اب پاکستان آکر کھیلنے کیلئے تیار ہیں اور اپنے دورے شیڈول کررہے ہیں…