یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ اپنے قیام کے روز اول سے ہی پاکستان کی کوشش اور خواہش رہی ہے کہ عالمی برادری کے سبھی ملکوں کے ساتھ خوشگوار ہمسائیگی اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کئے جائیں۔ اپنی اس کاوش میں پاکستان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ وطن عزیز کی سبھی حکومتوں نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بدقسمتی سے ہندوستان کی شکل میں ہمیں ایک ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کی اور اپنی اس ناپسندیدہ روش پر وہ تاحال قائم ہے مگر پاکستان کی حکومت اور ریاست نے اس ضمن میں اپنی مثبت کوششوں کو ہمیشہ جاری رکھا۔ اسی پس منظر میں ایک سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کرتار پور راہداری کی تعمیر و ترقی کے خواب نے عملی شکل اختیار کر لی یوں پاکستان کی جانب سے سکھوں قوم کا دیرینہ خواب پورا کر دیا گیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس ضمن میں وزیراعظم اور افواج پاکستان کے سپہ سالار نے وہ روشن کردار ادا کیا جس کا اعتراف خود سکھ قوم کے خواص و عوام کی جانب سے برملا کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ دو سال قبل راہداری کے افتتاح کے موقع نہ صرف پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بلکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شرکت کی، نوجوت سدھو اور اکالی دل کی طرف سے بھارت کی BJP کی سابق مرکزی وزیر ہرسمرت کور بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ سکھ قوم اور پاکستان کے مابین باہمی تعلق خاصی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے، جسے اس خطے کے کلچر کیلئے اچھا شگون قرار دیا جانا چاہیے، اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے لوگوں نے تقسیم ہندوستان کے انسانی المیے کو جتنا قریب سے دیکھا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اکثر مبصرین متفق ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت تقریباً 10 لاکھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان میں سے 90 فیصد کا تعلق دونوں اطراف کے پنجاب ہی سے تھا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ مشرقی پنجاب اور پاکستان حقیقی معنوں میں امن کے ’’متلاشی‘‘ ہیں۔ کرتار پور راہداری بھی اسی ضمن میں ایک بڑا قدم ہے۔ یوں بھی اگر یہ عمل آگے بڑھے تو اس کے دیر پا اثرات پورے جنوبی ایشیاء خصوصاً پاک و ہند کے مابین ثقافتی ہم آہنگی کا سبب بن سکتے ہیں اور آگے چل کر مقبوضہ جموں کشمیر کے منصفانہ حل میں بھی معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ثقافتی روابط بعض اوقات مذہبی روابط سے بھی زیادہ مضبوط ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے میں آئندہ پورے جنوبی ایشیاء میں معاشی ترقی ،خوشحالی و رواداری کے دروازے کھلنے میں معاونت مل سکتی ہے، یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ پاکستان کی حکومت، عوام اور سول سوسائٹی پہلے ہی سے اس ضمن میں مقدور بھر مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ ایسے میں عالمی برادری بھی اس حوالے سے اگر اپنا انسانی فریضہ نبھائے تو پورا جنوبی ایشیائی خطہ بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔دوسری جانب ہمیشہ کی طرف دہلی سرکار اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے اسکی پوری کوشش ہے کہ کرتار پور راہداری کو کسی صورت نہ کھولا جائے۔ لندن میں منعقد سکھ ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے کے بعد سے بھارتی حکام سخت تشویش میں مبتلا ہیں، انھیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ داخلی اور خارجی محاذ پر ہونیوالی اس ہزیمت کی تلافی کیسے کریں۔ ماہرین کے مطابق 1984 میں سکھوں کی نسل کشی کے بعد سبھی بھارتی خفیہ اداروں کی ہدایت پر کانگرس اور خصوصاً BJP نے شعوری کوشش کی کہ سکھوں کو واپس کسی بھی طور قومی دھارے میں لایا جائے، اس مقصد کے لئے مختلف سطح پر بیک وقت کئی شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی گئیں۔ مثلاً ایک جانب 1986 میں RSS نے ’’ راشٹریہ سکھ سنگت‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کو انتہائی منظم اور مربوط طریقے سے پورے بھارت کے سکھوں میں پروان چڑھایا گیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپریشن بلیو سٹار کے بعد سے بھارتی حکومت (بھلے ہی وہ کانگرس ہو یا BJP ) نے دانستہ طور پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ سکھ درحقیقت ہندوئوں کا ہی ایک فرقہ ہے۔ اپنے اس خیال کو عملی شکل دینے کی غرض سے 2002 میں انڈین آرمی کے سابق سکھ ایئرمارشل ’’ارجن سنگھ‘‘ کو ’’مارشل آف دی ایئر فورس‘‘ کا اعزاز دیتے ہوئے انھیں بھارتی ایئر فورس کا واحد ’’فائیو سٹار ایئرچیف ‘‘ بنانے کا انتہائی ’’غیر معمولی‘‘ قدم اٹھایا گیا ۔ یاد رہے کہ موصوف 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کے ایئر چیف تھے۔ یوں انھیں جنگ کے 37 برسوں بعد نجانے کس ’’خدمت ‘‘کے عوض یہ اعزاز بخشا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بھارتی ایجنسیوں کی شہہ پر انڈین ایئر فورس کی پوری تاریخ پر بھاری یہ غیر معمولی قدم اٹھایا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ کسی بھی طور سکھ قوم میں موجود ہندو مخالف جذبات کو قدرے ٹھنڈا کیا جائے۔ واضح رہے کہ 16 ستمبر 2017 کو موصوف 98 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ بات ہو رہی تھی راشٹریہ سکھ سنگت ، RSS اور BJPکی ملی بھگت کی۔ 1986 میں راشٹریہ سکھ سنگت کے قیام کے بعد سے اب تک راجستھان، دہلی، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور خصوصاً پنجاب میں اس کی 500 سے زائد شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ دہلی سرکار اپنے منفی اور سازشی طرزعمل پر نظر ثانی کر کے اپنی اقلیتوں کی حقیقی فلاح و بہبود کی جانب دھیان مرکوز کرے گی۔