تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاک و ہند کے وسیع و عریض خطے میں دین اسلام اولیا ئے کرام ومشائخ عظام کے ذریعے پھیلا ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ہند میں آمد اور ان کے توسط سے نوے لاکھ سے زائد ہندو مسلمان ہوئے۔ یاد رہے اس کائنات کے اندر دو نظام چل رہے ہیں۔ ایک دنیاوی نظام اور دوسرا روحانی باطنی نظام ۔ا ُس دور میں سچے با عمل لوگ تھے۔ اور اولیاء کرام کی معاشروںمیں بہت عزت و توقیر تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جعلی پیروں فقیروں نے بھی سر اٹھایا اور دین اسلام کو بے حد نقصان پہچایا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
حضرت خواجہ نظام الدین او لیاء جب جونہی ہند میں ڈیرے ڈالے۔ اللہ سبحان خاص رحمت سے اس علاقے میںآپ جلد ہی متعارف ہو گئے۔ ہندو راجاؤ نے جب یہ نظارے دیکھ کہ آپ کی چھوٹی سی جھونپڑی میں ہر وقت رونق لگی رہتی۔ رونق کیسے نہ ہوتی۔ یہ لوگ روحانی/ باطنی نظام کے تحت لوگوںکے دلوں پر حکومت کرتے ہیںس۔ جبکہ دنیاوی نظام میںرونقیں کم اور افراتفری زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسے دو نظام ہر دور میں رہے ہیں ا ور آج بھی موجود ہیں۔باطنی/ روحانی نظام کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کے راہی ہیں۔ جس طرح دنیا نظام میں صدر، وزیر اعظم، اور وزراء ہوتے ہیں اس طرح روحانی اور باطنی نظام میں بھی ولی، اولیائ، غوث، قطب ، ابدال عہدے ہوتے ہیں جو ہر علاقے میں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہیں جیسے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو روحانی دنیا مین خلافت ملی۔ اور آپ کے بعد اس علاقے میں خواجہ نظام الدین او لیاء ، خواجہ سلیمان تونسوی، حضرت بختیار کاکی ، حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی ، پیر حیدر علی شاہ جلالپوری، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، کو خلافت ملی اور برصغیر میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات عیاں ہے ان لوگوں کے لئے جو اس نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسر ے لوگ اس نظام کی روحانی و باطنی کیفیات کو سمجھنے سے قاصرتھے اور ہیں۔ جس کے باعث اس نظام کو کمزور کرنے میں علماء کا اس خطے میں خاصہ حصہ ہے۔ ہمیں اللہ اور رسول ؐ کی چھتری تلے جدو جہد کرنی چاہیئے تا کہ خانقائی نظام کی پر نور روشنی ہر سو پھیلے اور وہ اس روشنی کے دیئے سے دیا جلاتے جائیں۔ اور وہ محبت و اخلاس جو ناپید ہو چکا ہے پھر لوٹ آئے۔ یاد رہے دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ جو ہمیں امن و آشتی اور محبت کا درس دیتا ہے۔
میں اللہ اور رسول ؐ کے واسطے سے آج کے گدی نشینوں سے ملتمس ہوں کہ وہ آستانوں سے نکل کر امت مسلمہ کی راہنمائی اور تعلیم و تربیت کو یقینی بنائیں۔ پاکستان بائیس کروڑ مسلمانون کا ملک ہے۔ اس ملک کو ہم نے بڑی جدوجہد سے حاصل کیا۔ لاکھوں ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔لاکھوں بے گھر اور بیوہ ہو گئیں۔ خواتین کی عزتیں تارو تار ہوئیں۔ تب جا کر یہ ملک آباد ہوا۔ ہم اس ملک کو جنت بے نظیر بنانے کے لئے سب مسلک مل کر بیٹھیں اور ہم آپس میں کوئی اختلافی مسلہ نہ اٹھائیں۔ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور جو چیزیں ہم میں مشترک ہیں ایک دوسرے سے شیئر کریں تا کہ نفرتیں دور ہوں۔ اتحاد امت بین المسلمین کی راہیں ہموار ہوں۔ اسی میںمسلمانوں کی کامیابی کا راز ہے۔
صاجزادہ پیر سید مخدوم عباس محمد شاہ ہمدانی، سر پرست اعلی حسینی فیض رساں بھنگالی شریف و چیرمین تحریک فکر اسلام پاکستان نے حی علی الفلاح فاؤنڈیشن کے چیرمین سائین نعیم احمد، الحاج محمد سعید چشتی نظامی اور دیگر اراکین سے ایک اعلی سطحی اجلاس میں کہا تھا کہ خانقائی نظام کو مستحکم بنیادوں پر استور کرنے کے لئے تمام آستانے مل کر وحدت کے حصول کے لئے جدوجہد کریں۔ انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کی بات کرتے رہے۔ در اصل اقبال کی نظر میں وحدت پاکستان اوربرصغیر کیلئے ایک موثر ہتھیار تھا۔ جو طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کی پوری صلاحیت رکھتا تھاآج ہمیں اپنے بزرگان اسلاف کے اصولوں کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ مخدوم عباس شاہ نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ اتنا مشکل ہے اس وقت وحدت کی راہیں ہموار کرناجتنا پہلے کبھی نہ تھا انھون نے کہا لیکن میں پر امید ہوں۔ زمانہ جاہلیت کے دور میں اب سے زیادہ مشکلات تھیں لیکن آج الحمد للہ ہمیں آسانیاں بھی ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سب مل بیٹھ کر ان مسائل کی نشاندہی کر کے ان کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں۔ تا کہ اگلی آنے والئے نسلین کسی تفرقے کا شکار نہ ہوں۔
انھوں نے حالیہ تحریک لبیک پاکستان کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔کہ وہ ایک مذہبی اور سیاسی تنظیم ہے۔ اس لئے پاکستا ن کی سب جماعتون کو کھلے دل سے اس تنظیم کو ماننا چاہئے۔ اور خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ وہ اس ملک کے محب وطن شہری ہیں۔ ہمیں ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ نفرتیں برباردی کا سبب بنتی ہیں۔ ہمیں ان سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور استعمار کے نت نئے ہتھکنڈون پر قابو پانے کیلئے وحدت المسلمیں کے تحت ایک ایسا فورم تشکیل دیا جائیگا جوپاکستان میںکسی بھی بحران سے نمٹنے کے لئے موثر ہوگا ۔ انھون نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کی ایک آواز پر مشائخ عظام آستانوں سے اٹھ کرایوانوں میں پہنچے اور حکومت کی پریشانی منٹووں میں دور کر دی۔ یہ ان آستانون کا مثبت پہلو ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بجا نہ ہوگا۔ کہ یہ آستانے در اصل حکومت کا بنیادی ستوں ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کے وزرائ، سیاسی جماعتیںسب نا کام تھے۔ اور پاکستان میں قتل و غارت کا بازا گرم ہوتا لوگوں کو نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر خانقاہی نظام کے آستانوں نے سلگتی آگ کو فورا بجھا دیا ۔اور اسکا ایک شعلہ بھی بلند نہ ہونے دیا۔ لہذا حکومتوں کو ان بوریا نشینوں کی قدر کرنی چاہئیے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگا ہ پر انگریز وائسرائے یوں گویا ہو ا تھا۔ کہ ہم حکومت ظاہر ی طور پر کر رہے ہیں۔ لیکن اصل حکومت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ اور اس کے اشارے پر لوگ مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اب انگریز روحانی باطنی نظام کو سمجھ نہیں سکتا لیکن جو اسکو ظاہری طور پر نظر آیا اس نے کہہ دیا۔
لاہور میں سائیں نعیم احمد کے ہمراہ مجھے جامعہ العروتہ الوثقی، لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ہماری ملاقات سید جواد نقوی صاحب سے ہوئی انھون نے ہمیں ایک تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں وہ تمام مسالک کے اہل علم، علماء کرام و مشائخ عظام کی جانب سے بھرپورحمایت کے خواہاں ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ وہ باہم مل کر پیغام وحدت کی افادیت کو اجاگر کریں گے۔
انھوں نے کہا ہم ایک ایسا ڈاکومنٹ بنائین جو مسلمانوں کے ہر پہلو کا احاطہ کرے۔ اوراس ڈاکومنٹ کو قابل عمل بنانے لئے اس بات پر زور دیا کہ ہر مسلک کے اہل علم، ع اپنی قیمتی تجاویز کے ذریعے اس عمل میں شریک ہوں۔ تا کہ امت مسلمہ میں کسی بھی بحران کوقومی اور بین الاقوامی ہر سطح پر موثر دلائل کے ساتھ شکست دی جا سکے۔ سائیں نعیم احمد ، سجادہ نشین دربار عالیہ بانٹھ شریف و چیرمین حی علی الفلاح فاؤنڈیشن نے اس موقع پر کہا کہ وحدت ایک ایسا نقطہ ہے جس کی چھتری تلے ہم سب نے ہر حال میں بھائی بھائی بن کر بیٹھنا ہے۔ یہ دین اسلام کی بہت ہی اہم کڑی ہے۔ جو سب کڑیوں کو جوڑے گی۔ اور دین اسلام کے لئے جو قربانیا ں جوآج تک دی گئیں ہیں کبھی بھی رائیگا ںنہیں جائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ شہیدان کربلا کا کردار ہمارے پاس ایک ایسا ماڈل ہے ۔ جو اپنے اندر روحانی و انقلابی طاقت رکھتا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز ہے۔
انھوں نے کہا کہ شعیہ ، سنی ، اہل حدیث ، دیوبندی، چشتی، نظامی ، قادری، سہروردی سب کا مرکزی نقطہ ایک ہی ہے۔ اور تمام راہیں اللہ اور رسول ﷺ کی پیروی کا درس دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سید جواد نقوی صاحب کی اس سلسلے میں جدو جہد قابل ستائش ہے۔ جس کے لئے وہ اہل علم، علما ء کرام، مشائخ عظام سے تجاویز مانگ رہے ہیں۔ میری تمام علمائے کرام و مشائخ عظام سے اپیل ہے کہ وہ اس اہم ڈاکومنٹ مین اپنا حصہ ڈالیں۔ اور اسکو عملی جامہ پہنانے کے لئے جدو جہد کا آغاز کریں ۔ انھیںمثبت تجاویز دیں تا کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچیں ۔ انھوں نے کہا جلد ہی اس سلسلے میں اجلاس بلایا جائے گا۔ تا کہ وحدت امت کی بقاء و سلامتی اورطاغوتی قوتوں کی اسلام کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کی ایمانون کو تولا جاتا ہے۔ اس عظیم کار خیر میں سب لوگ جنگی بنیادوں پر کام کریں تا کہ وحدت امت مسلمہ کو ایسی مستحکم بنیادون پر استوار کیا جائے۔ تا کہ آنے والی نسلین طاغوتی شر سے محفوظ رہیں۔ اور دین اسلام کی آبیاری کرتے رہیں تا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ؓ
Nov 11, 2021