علامہ اقبال کو زیادہ تر ایک مفکر، شاعر اور فلسفی کے طور پر سمجھا اور پہچانا جاتا ہے

Nov 11, 2021

ویب ڈیسک

عصری حقائق سے ہمہ وقت آگاہ 

فکرِاقبال اور سائنس و ٹیکنالوجی 

 کسی یونیورسٹی میں سائنس کے طالب علم نہیں رہے مگر جدید سائنسی علوم کے زیر مطالعہ رہے

علامہ نے اپنی شاعری اور خطبات میں سائنس تحسین کی ہے اور جدید سائنسی نظریات سے استفادہ کیا 
 ابو جنید عنایت علی

تابش از خورشید عالمتاب گیر
برقِ طاق افروز از سیلاب گیر
تُو دنیا کو روشن کرنے والے سورج سے چمک دمک لے پانی کے بہا¶ سے بجلی پیدا کر اور گھر روشن کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال کو زیادہ تر ایک مفکر، شاعر اور فلسفی کے طور پر سمجھا اور پہچانا جاتا ہے۔ اس سے آگے ایک قدم بڑھ کر ہم انہیں برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہبر، پین اسلامزم(Pan Islamism) کے داعی اور حکیم الامت کے رتبہ پر فائز کر دیتے ہیں۔ جبکہ وہ عصری حقائق سے ہمہ وقت آگاہ رہتے تھے۔ بیسویں صدی کے سائنسی حقائق اور فلسفیانہ مسائل پر ان کی بہت گہری نظر رہتی تھی۔ وہ اگرچہ زمانی اعتبار سے کسی یونیورسٹی میں سائنس کے طالب علم نہیں رہے مگر علم الابدان، انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے جدید ترین مظاہر ان کے زیر مطالعہ ہوا کرتے تھے ۔ان کے زیر مطالعہ سائنس وانجینئرنگ کی بیس سے زائد کتب رہیں جو اس وقت کے بہترین ماہرین کی لکھی ہوئی تھیں۔اسی وجہ سے ان کی شاعری اور فلسفیانہ افکار میں جدید سائنسی علوم کا نہ صرف تاثر بلکہ پیشین گوئی بھی ملتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اردو اور فارسی کے واحد شاعر تھے جن کو صحیح معنوں میں سائنسی شعور کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔
 سید فقیر وحید الدین نے روزگار فقیر میں تحریر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ” 1925ءمیں نیاز محمد خان سی۔ سی۔ پی ممتاز حسن اور میاں نصیراحمد (چیئرمین پبلک سروس کمیشن)میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں علامہ اقبالؒ سے ملنے کے لیے گئے۔ علامہ نے ان طلباءسے دریافت کیا، تم کون سے مضامین پڑھتے ہو؟
میاں نصیر احمد نے جواب دیا ”فزکس اور کیمسٹری “ ( Physics & Chemistry) یہ سن کر علامہ نے نظریہ¿ اضافیت (Theory of Relativity) کا ذکر شروع کر دیا اور فرمایا ”اس تھیوری (Theory)کو سمجھنے کے لیے مَیں نے ریاضی کا مطالعہ بھی کیا۔ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں، نظر یہ¿ اضافیت کا یہ مطلب ہے کہ دنیا ازلی و ابدی نہیں، بلکہ یہ پیدا ہوئی ہے اور اسے فنا ہو جانا ہے۔“
میاں نصیر احمد نے عرض کیا، آجکل ایک امریکی ماہر طبیعیات جس کا نام پروفیسر کامپٹن (Compton)ہے لیکچر دینے آیا ہوا ہے (ان کا پورا نام تھامسن ہولی کامپٹن تھا اور 1927ءمیں انہیں فزکس کا نوبل پرائز ملا۔) 
 اس لیکچر کا انتظام گورنمنٹ کالج لاہور کے فزکس تھیڑ میں کیا گیا تھا۔ میاں نصیر الدین احمد کہتے ہیں کہ جب مَیں لیکچر ہال پہنچا تو مَیں نے دیکھا کہ علامہ سب سے آخری بینچ پر بڑے اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ امریکی پروفیسر کی تقریر ختم ہوئی تو اس نے سامعین کو سوالات کی دعوت دی۔ علامہ نے اس وقفہ سوالات کے دوران پروفیسر کامپٹن سے کئی اہم سوالات کیے، جو اس قدرعالمانہ اور پیچیدہ تھے کہ میاں نصیر احمد کے قول کے مطابق اُن کے فہم وادراک کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی، البتہ پروفیسر کامپٹن کے جواب کا مفہوم ان کے ذہن نشین رہا۔ اُس نے علامہ کے سوالات سے تقریباً عاجز ہوکر کہا تھا۔ ”سائنس قطعی طور پر اِن سوالات کے جواب نہیں دے سکتی۔“
 علامہ نے اپنی شاعری اور خطبات خاص کرThe Reconstruction of Religious Thought in Islam میں سائنسی راستے کی تحسین کی ہے اور جدید سائنسی نظریات سے استفادہ کیا ہے۔ علامہ اقبا ل کی سائنس سے دلچسپی اس امر سے بھی عیاں ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان طلباءزیادہ سے زیادہ سائنسی تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ جدید دنیا کے چیلنجز(Challenges) کا مقابلہ کر سکیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سائنسی کتب کے زیادہ سے زیادہ تراجم ہوں تاکہ مسلمان طلباءسہولت سے سائنس سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بیان ہے کہ 1932ءمیں اقبال نے ان سے کہا کہ اُردو کے لیے آپ کی کوششیں بڑی مبارک ہیں۔ لیکن آپ کی توجہ صرف ادب پرہے، ہونا یہ چاہیے کہ سائنس کی کتابیں اُردو میں منتقل ہوں تاکہ مسلمان خیالی دنیا سے نکل کر علمی دنیا میں قدم رکھیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے جب ان سے اس سلسلے میں کوئی کتاب تجویز فرما نے کو کہا تو انہوں نے جارج سارٹن کی Introduction to the History of Science کا نام لیا کیوں کہ یہ کتاب نہ صرف سائنس کی تاریخ ہے بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے سائنس کی ترقی میں کیسا نمایاں حصہ لیا۔ یہ کتاب1927ءمیں بالٹی مور، برطانیہ میں تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ علامہ کے زیر مطالعہ جو اکیس (21) سائنسی کتب رہیں یہ اُن میں سے ایک ہے۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ علا مہ فرماتے تھے:”ہم کیوں نہیں سمجھتے یہ اسلام ہی تھا جس نے وہ شرائط بہم پہنچائیں جن پر علم کی ترقی اور نشوونما کا دارومدار ہے۔ یہ شرائط کیا تھیں؟ مشاہدہ، معائنہ، فکر و نظر، تجربہ، تحقیق، تفتیش، حقائق کا اثبات، ان کا مطالعہ اور ان کی مسلسل تاویل و تعبیر۔ یہ شرائط پوری نہ ہوتیں تو علم کا راستہ دیر تک رُکا رہتا۔“
علامہ اقبال کی دوسری مشہور تصنیف ”رموزِ بیخودی“ ہے۔ جو 1918ءمیں چھپی۔ اس وقت تک پن بجلی یعنی پانی سے پیدا کرنے کا سلسلہ تو شروع ہوچکا تھا مگر شمسی توانائی(Solar Energy) اور ہوا سے توانائی (Wind Energy) کا وجود نہیں تھا۔ پہلا شمسی خلیہ(Solar ecell)1954ءمیں ایجاد ہوا جبکہ اس پہ مزید تحقیق اور اس کی انجینئرنگ کے بعد 1968ءمیں اٹلی کے شہرGenoa میں ایک چھوٹا سا پاور پلانٹ لگا کر اسے قابلِ عمل بنایا گیا۔ جبکہ رموز بیخودی میں 18۔1917ءمیں کہہ رہے ہیں۔
تابش از خورشید عالمتاب گیر
برقِ طاق افروز از سیلاب گیر
تُو دنیا کو روشن کرنے والے سورج سے چمک دمک لے لے۔ پانی کے بہا¶ سے وہ بجلی پیدا کر جو گھروں کو روشن کر دے۔
 اسی طرح ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا کمرشل آپریشن 1980ءمیں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست نیوہیمپ شائر سے ہوا مگر علامہ بہت پہلے 18۔1917ءمیں رموزِ بیخودی میں فرماتے ہیں۔
خویش را بر پُشتِ بادا سوار کن
یعنی ایں جمازہ را ماہار کن
تُو ہوا کی پُشت پر سوار ہو اور اس سانڈنی کے نکیل ڈال لے۔ علامہ کے دور میں کان کنی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ علامہ اپنی نظم ”توسیع حیاتِ ملیہ از تسخیر قوتِ نظام عالم است“ میں مسلمانوں کو اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
دست رنگین کن ز خونِ کہسار
جوئے آب گوہر از دریا برآر
پہاڑوں کے خون سے ہاتھ رنگ لے اور موتی کے آب و تاب کی ندی سمندر سے نکال، یعنی پہاڑوں اور دریا¶ں میں قدرت کے خزانے کی تلاش کر۔
علامہ اقبا ل کی تمام تصانیف اپنی مثال آپ ہیں مگر ان سب میں ’جاوید نامہ‘ چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے۔1931ءکے آخر میں علا مہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تو لندن میں انہوں نے کانفرنس سے ہٹ کر دوسرے اہل علم سے ملاقاتیں کیں ان میں سید ضیاءالدین طباطبائی (سابق ایرانی وزیر اعظم) سے ملے تو انہیں ’ جاوید نامہ‘ کے چند اشعار پڑھ کر سنائے جنہیں سن کر سید صاحب تڑپ اٹھے اور کہا ” ایسے اشعار نہ آج تک پڑھے اور نہ سنے ضروری ہے اس کلام کو بکثرت ایران میں شائع کیا جائے۔ ’جاوید نامہ‘ میں علامہ مولانا جلال الدین رومی کے ہمراہ آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ علامہ کی وجدانی کیفیت کا اندازہ کیجیے کہ ایک منجھے ہوئے سائنسدان کی طرح جب اپنا سفر زمین سے شروع کرتے ہیں تو ایک خاص ترتیب کے ساتھ سب سے پہلے اس کے قریبی سیارہ قمر۔Moon زمین سے(384,400 کلومیٹر)، اس کے بعد عطارد۔Mercury (زمین سے 105.9ملین کلومیٹر)، زہرہ۔Venus(زمین سے 133.1ملین کلومیٹر)،مریخ۔Mars(زمین سے 395.62 ملین کلومیٹر)، مشتری۔Juptier(زمین سے637.05 ملین کلو میٹر)، زحل۔Saturn(زمین سے1.4035 بلین کلو میٹر) اور پھر آسماں(فلک) کی طرف روانگی ہوتی ہے۔ یعنی یہ پورا سفر زمین سے اسی ترتیب سے ہے جس طرح سیّارے اپنے اپنے مدار میں ہیں۔ ان سیّاروں اور آخر میں فلک پہ مولانا روم کے ہمراہ وہ مختلف مسلم وغیر مسلم شخصیات سے ملتے ہیں۔ ان میں سیارہ مریخ(Mars) پر ایک ’ نبیّہ‘ (نبی عورت) سے ملاقات ہوتی ہے۔ جو علامہ کو زمین کی عورتوں کے نام پیغام دیتی ہے:
آمد آں وقتے کہ از اعجازِ فن
می تواں دیدن جنین اندر بدن!
حاصلے برداری از کشتِ حیات
ہرچہ خواہی از بنین اَز بنات!
پرورش گیرد جنین نوعِ دگر
بے شبِ ارحام دریا بد سحر!
 اب وہ وقت آ رہا ہے کہ سائنس کے معجزے سے عورت کے بدن کے اندر جنین کو رحم کے اندر دیکھا جا سکے گا۔
 وہ وقت قریب ہے جب تم زندگی کی کھیتی سے اپنے حسبِ خواہش پیداوار حاصل کر سکو گی (اپنی مرضی کے مطابق بیٹے، بیٹیاں حاصل کر سکو گی) ماں کے پیٹ میں بننے والا بچہ کچھ اور ہی ڈھب سے پرورش پائے گا، ماں کے پیٹ یعنی رحم میں رات بغیر صبح ہو جائے گی (یعنی ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا ہوں گے)
 غور فرمائیے کہ سائنسی علوم میں علامہ کی دُور رس نگاہیں31۔1930ءمیں الٹرا سا¶نڈ(Ultrasound) اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی (Test Tube Baby)کو دیکھ رہی ہیں، جبکہ پہلا الٹرا سا¶نڈ1956ءمیں ہوا اورپہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش 1978ءمیں ہوئی۔
 علامہ اقبال نے آئن سٹائن کے نظریہ¿ اضافیت (Theory of Relativity) کو سائنسی اور فلسفیانہ تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ اس نظریہ کی اہمیت اور مختلف پہلو¶ں سے بخوبی آگاہ تھے۔ فزکس کے شعبہ میں پاکستان کے مشہور سیائنسدان اور امریکی رسالہ Hadronic کے۔۔۔ ڈاکٹر محمد سلیم، علامہ اقبا ل کی نظریہ اضافیت میں دلچسپی سے متعلق لکھتے ہیں
”' اُس دَور میں کہ اچھے بھلے سائنسدان بھی نظریہ اضافیت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہے تھے، ریاضی کے علم کے بغیر ایک فلسفی شاعر کا اتنی دور بینی سے اس نقطہ نظر سے زمان و مکان کے موضوع پر اتنا عبور حاصل کرنا بڑی غیر معمولی بات ہے۔“

مزیدخبریں