بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں ہم محدود آمدنی والوں کی اوقات سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں اور اب باری ہے گیس کی۔ آپ کو اس ضمن میں مسلسل خبردار کرتا رہا ہوں۔میرے کئی خیرخواہ مگر مصر رہتے ہیںکہ لوگ مجھے ”باخبر“ صحافی سمجھتے ہیں۔انہیں گماں ہے کہ اقتدار کے مراکز میں جو کھچڑی پک رہی ہوتی ہے اس کے بارے میں مجھے ”سب معلوم “ ہوتا ہے۔اپنی وجہ شہرت کو لہٰذا برقرار رکھوں اور اس کالم کے ذریعے ”چوندی چوندی“ اندر کی خبریں آشکار کرتا رہوں ورنہ یہ کالم اپنی وقعت کھودے گا۔دوستوں کا مشورہ بجا۔ اس حقیقت کو تاہم بیان کرنا لازمی ہوگیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں اہم فیصلہ سازی ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے چند افراد تک محدود ہوچکی ہے۔ہمارے ہاں وسیع تر مشاورت کے بعد اب ”فیصلہ سازی“ نہیں ہوتی۔”سازشیں“ ہوتی ہیں۔
غیر سیاسی اداروں کو فی الوقت بھلاکر سیاستدانوں ہی پر توجہ مرکوز کرلیتے ہیں۔گزشتہ برس کے اکتوبر سے اسلام آباد میں چہ مے گوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ ”سیم پیج“ کی کہانی ختم ہوئی۔ عمران خان صاحب کو وہ غیر سیاسی بیساکھیاں میسر نہیں رہیں جن کے سہارے وہ کامل تین برس تک ہماری تاریخ کے طاقت ور ترین وزیر اعظم نظر آتے رہے۔ اس کی وجہ سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گیم کامیاب بنائی جاسکتی ہے۔
سرگوشیوں میں جو گفتگو ہورہی تھی اس کالم کے ذریعے آپ تک پہنچاتا رہاہوں ۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ جو بڑی جماعتیں پارلیمان میں وافر تعداد میں موجود ہیں ان کی قیادت نے کس دن اپنی ”پارلیمانی پارٹیوں“ کے اجلاس بلائے۔ ان کے سامنے تحریک عدم اعتماد کی تجویز رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں بھیجے نمائندگان کی رائے کو کھلے ذہن سے جاننے کی کوشش کی۔1985سے پارلیمانی کارروائی کا مشاہدہ کررہا ہوں۔مجھے مذکورہ بالا تناظر میں ہوا کوئی اجلاس یاد نہیں آرہا۔ ”مشاورت“ فقط آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمن اور شریف برادران تک ہی محدود رہی۔ ”قیادت“ کے ”حکم“ کو اگرچہ بقیہ افراد تک پہنچانے کے لئے چند معتبر ”قاصد“ استعمال ہوتے رہے۔اس کے بعد اللہ اللہ خیر صلیٰ ہوگیا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہدہوتے ہوئے میںفقط خبردار ہی کرسکتا تھا کہ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوشش سے باز رہا جائے۔عمران حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے جو بجٹ تیار کیا تھا وہ ٹھوس معاشی بنیادوں کے بغیر اٹھائی ایک خوش کن داستان تھی۔اس نے لوگوں کو اس گماں میں مبتلا کیا کہ کرونا جیسی وباءکے باوجود ملکی معیشت کی ”بہتری اور استحکام“کی جو معجزہ دِکھتی فضا بنی ہے اس نے پاکستان کو عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کی محتاجی سے آزاد کردیاہے۔ ہمیں اب بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت نہیں رہی۔ عوام کی اکثریت نے اس داستان پر اعتبار کیا۔
گزشتہ برس کے ستمبر سے مگر ٹھوس معاشی حقیقتوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔آئی ایم ایف نے 500ملین ڈالر کی وہ ”امدادی رقم“ مہیا کرنے سے انکار کردیا جو 2019میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی جانب سے طے ہوئے معاہدے کے تحت جاری ہونا تھی۔ اس معاہدے کی چند شرائط تھیں۔ حفیظ شیخ نے ان پر عملدرآمد کیا تو عوام بلبلا اٹھے۔ عوام کی بلبلاہٹ نے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے کئی اراکین قومی سمبلی کو ”بغاوت“ پر اکسانا شروع کردیا۔ اپنے دلوں میں ابلتے غصے کو انہوں نے مارچ 2021میں یوسف رضا گیلانی کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں اسلام آباد سے سینٹ کی خالی ہوئی ایک نشست پر منتخب کرکے عیاں کردیا تھا۔ اس برس کا اکتوبر اس کے سات ماہ بعدنمودار ہوا تھا۔ اس ”اکتوبر“ کے باوجود شوکت ترین ”منی بجٹ“ پیش کرنے کو مجبور ہوئے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کامل خودمختاری فراہم کرنے والا قانون بھی منظور کروالیا۔ معاشی حقائق کے آگے سرنگوں ہونے کے بعد شوکت ترین یہ دہائی بھی مچانا شروع ہوگئے کہ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے ساتھ ”دوستانہ“ نہیں رہا۔ وہ ”مخاصمت“ پر اتر آیا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ مبینہ ”مخاصمت“ کی اصل وجہ کیا تھی۔اس سوال پر ہماری ہر نوع کی اشرافیہ نے غور کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ ہم صحافیوں کی اکثریت بھی اس تناظر میں اصل وجوہات کا کھوج لگانے کے تجسس سے محروم رہی۔ عوام کو یہ بتانے کا تردد ہی نہیں کیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی ذلت آمیز واپسی نے واشنگٹن کے فیصلہ ساز حلقوں میں ہمارے بارے میں کیا جذبات ابھارے ہیں۔ افغانستان نے ”غلامی کی زنجیریں“ توڑ کر ہمیں شاداں بنائے رکھا۔
رواں برس کا فروری ختم ہوتے ہی روس یوکرین میں درآیا۔صدر پوٹن کو گماں تھا کہ زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں میں اس کی افواج یوکرین کے دارلحکومت پر قابض ہوکر اسے ”عظیم تر روس“ میں واپس لے آئیں گی۔ وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوا ہے۔جنگ بدستور جاری ہے ۔طویل ہوتی جنگ نے پاکستان ہی نہیں یورپ کے امیر ترین ممالک میں بھی بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچادیا ہے۔اس کے بعد گیس کی باری تھی۔سردیوں کا سیزن شروع ہونے سے کئی ماہ قبل لہٰذا انہوں نے اپنے ہاں عالمی منڈی سے منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہوئے گیس ذخیرہ کرنا شروع کردی۔ہمارے ”برادر ممالک“ کے پاس بھی ہمیں بیچنے کو اب گیس کا بلبلہ تک موجود نہیںہے۔
جو حقائق میں بیان کررہا ہوں ”اچانک“ نمودار نہیں ہوئے۔ ان کا ابھرنا عمران خان صاحب کی جگہ اقتدار میں آئے ”کائیاں اور تجربہ کار“ سیاستدانوں کو کئی ماہ قبل جان لینا چاہیے تھا۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ تحریک عدم اعتماد کامیا ب ہوجانے کے بعد فی الفور نئے انتخاب کا انعقاد ہوتا۔عوام کو انتخابی مہم کے دوران ایمانداری سے بتایا جاتا کہ پاکستان کے لئے کونسے ”بحران“ تیار ہورہے ہیں۔ان سے نبردآزما ہونے کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہے۔عوام کی مناسب ذہن سازی کے بعد نئے انتخاب کے ذریعے وجود میں آئی حکومت”مشکل ترین فیصلے“ لینے کی حقدار تھی۔وہ پانچ سالہ آئینی مدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا بوجھ بھی برداشت کرسکتی تھی۔ وقت مگر اب گزرچکا ہے۔سردیاں شروع ہوچکی ہیں۔گیس کی کم از کم دگنی قیمت ادا کرنے کو لہٰذا تیار رہیں۔ موجودہ ہی نہیں ”کوئی بھی حکومت ”اس کا مداوا نہیں کر پائے گی۔
اور اب گیس کا بحران بھگتنے کیلئے تیار رہیں
Nov 11, 2022