وہ جو اک رازِ محبّت تھا درونِ سینہ
لبِ خامہ پہ مرے حرف وہ بن کر اْترا
جس کے افکار نے ہلچل سی مچا دی دل میں
آج وہ مہرِ محبّت سرِ افلاکِ بریں
ایسے چمکا کہ اندھیروں کی کمر ٹْوٹ گئی
شب کی تاریکی میں الفت کی کرن پھْوٹ گئی
اْس نے آزادء انسان کے نغمے گائے
عالمِ کْفر میں قرآن کے نغمے گائے
فکرِتوحید کی لذّت سے بھی سرشار کیا
خس و خاشاکِ زمانہ کو شرر بار کیا
ضربِ اشعار سے زنجیرِ غلامی توڑی
قصر الحاد کے ٹھوکر سے گرائے اْس نے
ہم کو خود داری کے پیمانے بتائے اْس نے
سارے اسرارِ خودی ہم کو سکھائے اْس نے
شیخ و ملّا کی فسوں کاری سے بے زار کیا
شعبدہ بازوں کی دیں داری سے بے زار کیا
وہ مساواتِ بشر کا تھا نقیبِ اعظم
فکرِ سرمایہ پرستی کو اْکھاڑا کس نے ؟
مرحبِ وقت کو پھر آ کے پچھاڑا کس نے؟
جعفری مْجھ کو تو نسبت ہے اْسی کے در سے
میرا کْچھ ربط نہیں سطوتِ زور و زر
مَیں تو اقبال کے میخانے کی مے پیتا ہوں
یہ اْسی مے کا اثر ہے کہ ابھی جِیتا ہوں
اپنی اْدھڑی ہوئی پوشاکِ وفا سیِتا ہوں
ڈاکٹر مقصود جعفری