پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس وقت انتہائی مخدوش حالات سے دوچار ہے کسی کو نہیں پتا کہ صوبہ میں کون سی حکومت کام کر رہی ہے ۔ پولیس کے سربراہ اپنے فرائض سے کیوں بھاگنا چاہتے ہیں۔ چیف سیکرٹری وفاق جانے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ پنجاب کے دل لاہور کے پولیس سربراہ وفاق کے عناد کا شکار ہیں۔ پی ٹی آئی کے وزراء آپس میں دست و گریبان ہیں۔ اپوزیشن نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے ۔کوئی ادارہ ان حالات سے باہر نہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آج میں اپنے قارئین کو اس سے آگاہ کروں گا گو کہ اس ’ آگاہی مہم‘ میں بہت سارے طاقتور لوگ مجھ سے شدید ناراض ہو جائیں گے۔ مگر ان کی ناراضی سے زیادہ اہم میرا ملک ہے۔ جیسے ہی حکومتیں تبدیل ہونے لگیں تو آئی جی پولیس پنجاب راؤ سردار نے نئے آنے والے وزیراعلیٰ کے ساتھ کام کرنے سے معذرت کر لی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو آگاہ کیا کہ وہ اس سیاسی صورتحال میں مزید اپنی خدمات انجام نہیں دے سکتے لہٰذا انھیں پنجاب سے تبدیل کر کے وفاق میں بھیج دیا جائے۔ یہ پتھر راؤ سردار کا پھینکا ہوا تھا۔ اگلی حکومت آنے کے بعد اُنکے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر کامران افضل(جنھوں نے آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے) نے بھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک مراسلہ لکھ مارا کہ وہ ان حالات میں خدمات انجام نہیں دے سکتے۔
صوبہ پنجاب کے ان سینئر افسران کا حالات سے فرار کیلئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے مدد مانگنا موجودہ آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کو بھی بھا گیا۔ انہوں نے بھی اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے ان افسران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھ دیا کہ میں ان حالات میں کام نہیں کر سکتا لہٰذا مجھے پنجاب سے وفاق میں تبدیل کیا جائے۔یہ الگ بات ہے کہ راؤ سردار کے علاوہ ابھی تک کسی افسر کی شنوائی نہیں ہو سکی اور وہ پنجاب میں ہی ناراض و پشیمان براجمان ہیں۔ پچھلی دفعہ سے لیکر اب تک چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر کامران افضل کی جانب سے چھٹی کی درخواست نہ بھیجی گئی مگر وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے اُن کی رخصت منظور کر لی۔ عام معنوں میں اس کو جبری رخصت کہا جاتا ہے۔ گریڈ 22 کے سینئر ترین ان افسران سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن یہ سوال کیوں نہیں پوچھ رہا کہ آپ کا وفاق کو لکھا گیا خط ہی غیر آئینی ہے جس میں آئی جی صاحبان نے آئی جی کا لیٹر ہیڈ اور مہر استعمال کی جبکہ چیف سیکرٹری نے چیف سیکرٹری کا لیٹر ہیڈ استعمال کیا اور جبکہ یہ افسران اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ کشیدہ سے کشیدہ حالات کا مقابلہ کر کے ملک کو ناگہانی صورتحال سے نکالیں گے۔ انکے ماتحت رینکر آفیسر اگر انہی افسران کو اسی طرح کا خط لکھیں تو کیا یہ اُس کو شوکاز نہیں دینگے؟ اور مزید کارروائی کرتے ہوئے اس بات کو جواز بنا کر نوکری سے نہیں نکالیں گے کہ یہ حالات کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ؟ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا چاہئے جو یہ اپنے ماتحت افسران کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ مگر شاید اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی مصلحت کا شکار ہے اور وفاق اور پنجاب میں پائی جانے والی کشیدگی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ سمجھنے کی بات ہے بارہ کروڑ آبادی والے صوبے کا وزیراعلیٰ ان وفاقی افسران کے آگے مکمل طور پر بے بس ہے۔
غیر یقینی کی اس صورتحال میں پنجاب کے عوام بُری طرح پس رہے ہیں۔ بیوروکریسی کا گولڈن ہنی مون چل رہا ہے۔ نااہل افسران سفارش کے زور پر پُرکشش عہدوں پر تعیناتیاں کروا رہے ہیںاور قابل افسران کو کھڈے لائن لگا یا جا رہا ہے ۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے راقم کو بتایا کہ سیکرٹری ٹورازم محترمہ آسیہ گل کے شوہر ایل ڈی اے کے آفیسر ہیں انہوں نے بزدار دور میں مبینہ طور پر ’’فیس‘‘ ادا کر کے اپنی اہلیہ محترمہ آسیہ گل کو ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر مقرر کروایا۔ اب وہی سفارشی آسیہ گل کو سیکرٹری شپ دلانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے۔احمد جاوید قاضی انتہائی پروفیشنل افسران میں شمار ہوتے ہیں اُن کا اپنے وزیر میاں اسلم اقبال سے جھگڑا چل رہا تھا۔ احمد جاوید قاضی اپنے سینئرز سے استدعا کر کے سیکرٹری صحت تعینات ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سیکرٹری ایکسائز آصف بلال لودھی جنہیں پی ٹی آئی کی حکومت میں کمشنر لاہور کی پُرکشش آسامی سے کسی اہم شخصیت کی ناراضی کی وجہ سے فوراً ہی ہاتھ دھونے پڑے تھے اب سردار آصف نکئی کی سفارش پر سیکرٹری ایکسائز تعینات ہو تو گئے ہیں مگر نجی محفلوں میں اپنے وزیر آصف نکئی کے حوالے سے کہتے نظر آتے ہیں کہ پورا ڈیپارٹمنٹ نکئی اور اُنکے جاننے والوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے اور ٹرانسفر پوسٹنگ اگر میں نہ بھی کروں تو وہ میرے ڈی جی کے ذریعے آرڈر کروا لیتے ہیں۔ آجکل اُنکے پاس سیکرٹری انفارمیشن کا اضافی چارج بھی ہے۔ آصف بلال لودھی بھی کوشاں ہیں کہ وہ کسی اور محکمے کے سربراہ کے طور پر چلے جائیں۔ راجہ منصور جو کہ ایک ایماندار اور قابل آفیسر ہیں۔ محکمہ اطلاعات سے اپنی جان چھڑا کر چیئرمین لیکویڈیشن بورڈ تعیناتی کروا کر خوش نظر آتے ہیں۔ اہم خبر یہ ہے کہ وزیراعظم میاں شہبازشریف قائد نوازشریف سے مل کر بات منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید ایکسٹینشن دے دی جائے۔ یاد رہے جنرل باجوہ بار ہا کہہ چکے ہیں کہ مزید ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا مگر وزیراعظم کی خواہش ہے کہ ملک کو اس وقت جن اندرونی و بیرونی سازشوں کا سامنا ہے انکے حل کیلئے پاک فوج کا کردار اہم ہے اس لئے سپہ سالار کی تبدیلی اس موقع پر مناسب نہیں۔چنانچہ ملک کے وسیع تر مفاد میں جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
پنجاب میں سینئر افسران کا ذمہ داری سے فرار؟
Nov 11, 2022