عالمی انسانی حقوق کمیشن کا 41واں سیشن اور بھارت !

    مقبوضہ کشمیر ہو یا بھارت میں مسلمان اقلیت کے خلاف ختم نہ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسانی حقوق متعد بار اس کا نوٹس لے چکا ہے۔ اس پر باقاعدہ تفصیلی رپورٹس بھی شائع کی جاتی رہی ہیں۔لیکن بھارت نے اس طرح کی رپورٹس کی کبھی پرواہ نہیں کی اور اب ایک بار پھر جنیوا میں اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کمیشن کا 41واں اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے۔ یہ اجلاس 7نومبر 2022سے 18نومبرتک جاری رہے گا۔ جس میں اجلاس کے شرکا پہلے سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس حوالے سے ان ممالک کو جاری کیے گئے نوٹسسز کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ ان ممالک نے کس حد تک ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
 اس طرح کا جامع اجلاس ہر چار سال کے بعد اقوام متحدہ کی زیرنگرانی منعقد کیا جاتا ہے۔ حالیہ اجلاس کے حوالے سے اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق بھارت کا نام سرفہرست ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کم ہونے کی بجائے گزشتہ چار برسوں میں ان میں زیادہ شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ایجنڈے میں اسے:
 Universal Periodic Review (UPR)of India?  کاٹائٹل دیا گیا ہے۔ 
اجلاس میں United Nations Commissioner for Human Rights (OHCHR) 
کی طرف سے مرتب کردہ خصوصی رپورٹ شریک ممبر ممالک کے سامنے پیش کی جائے گی۔ جو بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تازہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے۔ بحث کرے گی اور آئندہ کیلئے الگ سے رپورٹ مرتب کی جائیگی۔ جس میں چار برس قبل دی گئی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی کاروائیوں میں کمی نہ ہونے میں صورت تجاویز دے گی کہ بھارت کے خلاف کس طرح کی تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پرانسانی حقوق کمیشن بھارت پر پابندیاں لگانے کی جرأت کرتا ہے یاماضی کی طرح رپورٹ جاری کرکے آئندہ چار برس تک مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں اور بھارت میں مسلمان اقلیت کے قتلِ عام کا نظارہ کرنے کے بعد ایک بار پھر اس کا جائزہ لینے کیلئے جنیوا میں اجلاس کا انعقاد کیا جائے گا؟
    بھارتی ناجائز زیرقبضہ کشمیر میں 80لاکھ مظلوم کشمیریوں کی بے چارگی ہو یابھارت میں مسلمان اقلیت کی حالت زار، یہ سب دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے بھارت ہر طرح کے عالمی ضابطوں ،اقوام متحدہ کی طرف سے لاگو کیے گئے قوانین، انسانی اقدار و اخلاقیات اور ہر طرح کی انسانی روایات سے بالاتر ہے۔ کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب مقبوضہ کشمیر میں نوجوان کشمیریوں کو بھارت کا غدار قرار دے کر انہیں جعلی مقابلوں میں شہید نہ کیا جاتا ہو۔جبکہ کشمیری خواتین سب سے زیادہ مشکل میں ہیں، بھارت سے آزادی کیلئے متحرک کشمیری خواتین کی آبرو ریزی کو بھارتی سیکورٹی اداروں نے بطور جنگی حکمت عملی اختیار کر رکھا ہے۔ لیکن 5اگست  2019 کو ہندوتوا کی پیروکار نریندر مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیے جانے کے بعد وہاں جس طرح کے مظالم ڈھائے گئے اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شرمندہ ہیں۔ کیونکہ ان کیلئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ مقبوضہ وادی کے اصل حقائق دنیا کے سامنے لاسکیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران بھارتی فوج 400سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکی ہے۔
 پانچ کشمیری صحافیوں کو بھارتی فوج و بارڈر سیکورٹی فورس کی بربریت اجاگر کرنے پر ''نامعلوم''افراد کے ذریعے قتل کرادیا گیا۔ خاتون صحافی مسرت زہرہ کو بھارتی فوج کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر الجزیرہ ٹی وی باقاعدہ دستاویز فلم عکس بند کر کے دنیا کے سامنے لاچکا ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حقائق کیمرہ کے ذریعے عکس بند کرنے اور سچ لکھنے والوں کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔15جون 2018کو سری نگر میں بھارتی فوج نے براہ راست فائرنگ کر کے مقبوضہ کشمیر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہRising Kashmir کے ایڈیٹر شجاعت بخاری اور اس کے دو سیکورٹی گارڈ ز کو قتل کردیا۔ شجاعت بخاری کا قصور یہ تھا کہ ایک کشمیری خاندان کا گھر اور اس سے ملحقہ کھیت ہتھیانے کیلئے ناجائز قابض بھارتی فوج نے جب اْس گھر میں دہشت گردوں کی آمدو رفت کا شوشہ چھوڑ کر علاقے کی ناکہ بندی کی توشجاعت بخاری نے مذکورہ گھر اور ملحقہ کھیت کی تصاویر اپنے اخبار میں شائع کر کے ساتھ ہی حقائق لکھ دیئے کہ بھارت سرکار مذکورہ گھر اور ملحقہ زمین پرقبضہ کیلئے اس گھر میں دہشت گردوں کی موجودگی کا ڈرامہ رچا کر گھر کو بارود سے اْڑانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ خبر ناجائز بھارتی فوج سے ہضم نہ ہوئی اور شجاعت بخاری کو دن دیہاڑے شہید کردیا گیا۔
    اسی طرح بھارت میں مسلمان اقلیت کیلئے زندگی بھی دوبھر کی جاچکی ہے۔ کبھی مسلمان طالبات پر حجاب میں تعلیمی اداروں میں داخل ہونے پر پابندی لگا کر فساد برپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں مساجد کو ناجائز تعمیرات قرار دے کر انہیں گرادیا جاتا ہے۔گائے کا کوشت کھانے یا گائے کی خرید وفروخت کا الزام لگا کر مسلمانوں پر بیہمانہ تشدد تو معمول کی بات ہے۔ اس طرح کی پر تشدد کاروائیوں میں گزشتہ دہائی کے دوران بے شمار مسلمان نوجوانوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ ہندوانتہا پسند حکومت کا نیا حربہ بھارت میں مسلمانوں کے خیراتی اداروں پر پابندیاں ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی طرف سے قائم کردہ انسانی خدمت کے یہ ادارے صرف مسلمان ہی نہیں ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ضرورت مندوں کی یکساں انداز سے خدمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ان خیراتی اداروں پرالزام لگایا گیاکہ یہ بھارت میں دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث ہیں۔ گزشتہ ماہ 4اکتوبر کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر کھڈا میں گیارہ مسلمان نوجوانوں کو وہاں کی پولیس نے سرعام کھمبے سے باندھ کر انہیں ڈنڈوں سے پیٹا۔ ان مسلمانوں کا قصور یہ تھاکہ انہوںنے اپنے محلے کی مسجد میں میلاد کی محفل میں خلل ڈالنے والے ہندو انتہا پسندوں سے الجھنے کی کوشش کی تھی۔ انہیں علاقے کی ہندو انتہا پسند تنظیمو ںکی خواہش پر گرفتار کر کے چوراہے پر لاکر تشدد کا نشانہ بنانے سے قبل پولیس والوں نے باقاعدہ سپیکر پر منادی کرائی تاکہ ہندو مرد و خواتین اکٹھے ہوکر مسلمانوں پر تشدد سے محفوظ ہوسکیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...