آج مجھے شدت کے ساتھ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری سوسائٹی مجموعی طور پر ایک سفاک‘ بے رحم اور بے حس سوسائٹی بن چکی ہے جس میں شرفِ انسانیت کا بھی فقدان ہے اور کسی مشکل وقت میں مصیبت میں گھرے انسانوں کی امداد و معاونت کا جذبہ بھی ہمارے اندر بتدریج ختم ہوتا جارہا ہے۔ جب سے یہاں اقدار اور شرافت کی سیاست کا جنازہ اٹھا ہے‘ تب سے ایک دوسرے کے ساتھ نفرت و حقارت کے جذبے نے ہمارے دلوں میں گھر کرلیا ہے۔ صرف اپنے ممدوح لیڈر کو اوتار کا درجہ دیا جاتا ہے اور دوسروں کیلئے جو بھی گالی اور ہذیان ہمارے منہ سے نکل سکتی ہے اسے نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی بلکہ حساب برابر کرنے سے بھی آگے کے مراحل ہذیان کی جستیں بھرتے ہوئے طے کرلئے جاتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی عار محسوس نہیں ہوا کہ سیاست میں گالی گلوچ کلچر کو گھسیڑنے کا سہرا آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ عمران خان کے سر جاتا ہے جنہوں نے ریاست مدینہ پر ریاکارانہ سیاست کرتے ہوئے ہر اس انسانی قدر کو لات ماری جو اسلامی تعلیات کی روشنی میں ہماری گھٹی میں شامل ہونی چاہیے۔ مغربی معاشرے میں تو سب سے زیادہ زورہی شرف انسانیت‘ ایمانداری اور راست گوئی پر دیا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب اکثر یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ مگر مغرب کے کلچر میں زندگی کا بیشتر حصہ گزار کر اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وہ انسانی بے توقیری کے جو وافر مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں اور قومی سیاست کو گالم گلوچ کلچر کے ساتھ انہوں نے جس طرح آلودہ کردیا ہے وہ ان میں شرف انسانیت کی کسی دھندلی سی رمق کی بھی تصدیق نہیں کر پا رہا۔
اس سیاست کے بلاشبہ ہمارے پورے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور بھائی چارے کا تو تصور ہی عنقا ہو گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کی آنکھوں میں اپنے سے متضاد سوچ رکھنے والے کیلئے خون اتر آیا ہے۔ گویا:
آدمی کے لئے، آدمی روگ ہے
بے شک اس دھماچوکڑی سیاسی کلچر میں افراد کی ہی نہیں‘ دکھی انسانوں کی فریاد سننے کے ذمہ دار ریاستی اداروں اور حکمرانوں کی بھی ’’جندڑی‘‘ علیل ہو چکی ہے۔ حکمران طبقات اس معاملہ میں عملاً بے نیاز ہو چکے ہیں کہ انہوں نے معاشرے کے بے بس و مقہور انسانوں کے دکھوں کا مداوا کیسے کرنا ہے اور قدرت کی طرف سے زلزلوں‘ طوفانوں‘ سیلابوں کااور موسمیاتی تبدیلی کی بنیاد پر لاحق ہونے والے عوارض کا سدباب کیسے کرنا ہے۔ اس سے عہدہ برأ ہونے کی تدبیر کہاں سے ڈھونڈنی ہے اور فہم و تدبر کا راستہ کیسے نکالنا ہے۔
یقیناً حکمران طبقات کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں‘ اگر انکے مخالف سیاست دان انہیں سکون و عافیت کا کوئی ایک پل نصیب ہی نہ ہونے دیں اور بلیم گیم کی شتربے مہار اٹھائی جانیوالی گرد میں انہیں کوئی راستہ سجھائی ہی نہ دے تو وہ محض اپنے اقتدار اور اپنی سیاست کو بچائے رکھنے کیلئے ہی فکرمند رہیں گے۔ ہم نے 2014ء سے اب تک کی سیاست میں انسانی توقیر پر گند کے سونامی اٹھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں جبکہ اس عرصہ کے دوران قدرت نے موسمیاتی تغیروتبدل کے ذریعے اس کرۂ ارض پر ہرذی روح کیلئے کڑی آزمائش کے جو مظاہر دکھائے ہیں‘ ہماری گندی سیاست نے ایسی آزمائشوں سے عہدہ برأ ہونے کیلئے حکومتی اور معاشرتی سطح پر کسی تدبیر و تدبر کو راستہ دینے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔
جناب! موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے قدرت کی آزمائش تو ہم سے بہت سنجیدہ غور وفکر اور عملیت پسندی کے ساتھ ٹھوس اقدامات اٹھانے کی متقاضی ہے مگر متعلقین کو گندگی کی سیاست سے خود کو بچانے کی ہی فکر لاحق ہے۔ سطح زمین سے تیزی سے نیچے جاتے پانی سے اس خطہ میں اگلے چار پانچ سال کے دوران پانی کی جس شدت کے ساتھ کمیابی ہو گی‘ اس سے عہدہ برأ ہونے کی کوئی حکمت عملی طے کرنا سیاست کے گند میں الجھے ہمارے حکمران اور غیرحکمران قومی سیاسی‘ مذہبی قائدین کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ پھر موسمیاتی تغیروتبدل کے نتیجہ میں جس سرعت کے ساتھ کرۂ ارض سخت گرمی کی لپیٹ میں آرہا ہے اور ٹمپریچر ہی نہیں‘ گرمی کے موسم کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے وہ مستقبل قریب میں انسانی زندگیوں کو کس طرح لاچار بنانے والا ہے اور موت کی جانب دھکیلنے والا ہے‘ نفرتوں کی سیاست کرنیوالے عمران خان صاحب کو اس کا ادراک ہوسکتا ہے۔ انہیں اپنی حکمرانی کے دوران اس کا احساس و ادراک نہیں ہو پایا تو اب تو وہ دمادم مست قلندر پر اترے ہوئے ہیں۔ وہ خود کیا نازل ہونیوالی قدرتی آفات اور آزمائشوں کا احساس کرینگے اور حکمران طبقات کو ایسی آزمائشوں سے عہدہ برأ ہونے کیلئے کچھ سوچ بچار کرنے کا بھی بھلا کہاں موقع فراہم کرینگے۔
حضور! یہ قدرت کی طرف سے نازل ہونیوالی آزمائشیں آپ کے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھ جانے والے رویے سے تو ٹلنے والی نہیں۔ پوری دنیا ان آزمائشوں پر متفکر ہے۔ کورونا کی آزمائش نے بالخصوص مغربی دنیا (ملحدوں) کو تفکر و تدبر کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں آنیوالے خوفناک سیلاب پر ہم سے زیادہ مغربی معاشرہ اور انکی قیادتیں ہی فکرمند ہیں۔ انسانی حقوق اور صحت کے عالمی ادارے سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ آئے روز عالمی کانفرنسوں کا انعقاد کرکے قدرتی آفات کے آگے بند باندھنے اور ان سے انسانوں کیلئے ممکنہ نقصانات کم کرنے کی فکرمندی میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے پہنچنے والے غیرمعمولی نقصان پر شرمندہ اور متفکر ہیں اور ان موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار بالخصوص مغربی ممالک کی قیادتوں کو عملاً لعن طعن کرتے ہوئے انہیں پاکستان کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے پر مجبور کررہے ہیں مگر ہمیں تو ’’فاقہ مستی‘‘ نے ہی مدہوش کیا ہوا ہے اس لئے ہم نے اپنے سارے معاملات ’’قوت ایمانی‘‘ سے سپرد خدا کر دیئے ہوئے ہیں۔ ارے خدا کے بندو! اسی خدا نے تو آپ کو جھنجوڑا ہے۔ تو کیا آپ محض کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے رہو گے؟ آپ کی چشم کشائی کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں یہاں شیئر کررہا ہوں جو اقوام متحدہ کے زیراہتمام مصر میں منعقد کی گئی ’’کوپ 27 کلائیمٹ کانفرنس‘‘ کے آغاز کے موقع پر جاری کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ سال دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں۔ اب پاکستان سمیت دنیا میں آگے کیا ہونیوالا ہے‘ اس رپورٹ کے مندرجات ملاحظہ فرمائیں اور پھر غالب کے بقول ’’حیراں ہوں، دل کو روئوں یا پیٹوں جگر کو میں‘‘ کی تصویر بن کر نہ بیٹھ جائیں۔ اس لمحۂ فکریہ کی جانب اپنے ممدوح سیاسی قائدین بشمول حکمرانوں کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر متوجہ کریں اور انہیں موسمیاتی تبدیلیوں پر دنیا میں اٹھنے والی فکرمندی کا حصہ بنائیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق سمندروں کی سطح میں گلیشیئر پگھلنے کے عمل، طوفانی بارشوں، ہیٹ ویوز اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زمین کا درجہ حرارت 19 ویں صدی کے اختتام کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے اور 50 فیصد اضافہ گزشتہ 30 برسوں میں ہوا ہے۔اس بارے میں اقوام متحدہ نے ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ رواں صدی کے آخر تک پاکستان کا درجہ حرارت 26ڈگری سینٹی کی حد سے بڑھ جائے گا جبکہ اگلی صدی کے وسط تک سالانہ اوسطاً درجہ حرارت 22.4ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک سال میں گرم دنوں کی تعداد، میں اضافہ ہو سکتا ہے اور درجہ حرارت 35 سینٹی گریڈ سے بڑھ سکتا ہے۔ سال 2030کے آخر میں یہ تعداد 124ہوگی اور سال 2099تک یہ تعداد بڑھ کر 179ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے شہر فیصل آباد میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سال 2020اور سال 2039کے درمیان ہر 10لاکھ میں سے 36افراد کی موت واقع ہوسکتی ہے اور فیصل آباد ہی میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سالانہ اموات کی شرح تقریباً دگنی ہوسکتی ہے۔ وسط صدی تک ہر 10لاکھ میں سے 67افراد کی موت ہوسکتی ہے۔ جبکہ موسمیاتی تبدیلی یا انتہائی گرم درجہ حرارت پاکستان میں بڑھتی اموات کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ موسماتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے متعلق جو دستاویز جاری کی گئی ہے اسکے مطابق پاکستان دو دہائیوں سے 152 مختلف موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متاثر ہوا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے سطح سمندر میں دو سے 3 فٹ اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2025ء میں پانی کی کمی کا سامنا ہوگا۔تو جناب! کیا آپ نے اس رپورٹ کے بعد بھی خواب خرگوش کے مزے لوٹنے ہیں یا باہم دست و گریباں اپنے اپنے ممدوح سیاسی قائدین کو جھنجوڑ کر راہ راست پر لانا ہے:
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے