مرکزی وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کی زیرقیادت پی ٹی آئی کا لانگ مارچ گزشتہ روز وزیرآباد سے دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ مارچ کی قیادت میں سنٹرل پنجاب کے سینئر نائب صدر محمد احمد چٹھہ، جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی اسدعمر‘ میاں حماد اظہر اور ڈاکٹر یاسمین راشد انکے ہمراہ ہیں۔
بے شک ملک کا آئین ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ احتجاج پرامن رہ کر جلائو اور گھیرائو اور کسی سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے بغیر کیا جائے۔ حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین کے تقاضے نبھاتے ہوئے احتجاج کرنیوالوں کے مطالبات کو تحمل سے سنے اور جائز مطالبات تسلیم کرنے کی کوشش کرے۔ عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے افسوسناک واقعہ کے بعد تعطیل کا شکار ہونیوالا لانگ مارچ اسی مقام سے دوبارہ شروع ہو چکا ہے ۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد پی ٹی آئی قیادت مذاکرات کا راستہ اپناتی۔ اگر وہ ای وی ایم کے ذریعے ملک میں فوری اورشفاف انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے تو اس کیلئے اسے احتجاج کا راستہ اپنانے کے بجائے سیاسی حکمت عملی اور مذاکرات کے ذریعے اسکی راہ ہموار کرنا چاہیے تھی۔ دو روز قبل عمران خان خود جمہوری قوتوں کیلئے دروازے کھلے رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ مگر انکی موجودہ جارحانہ سیاست سے نہ صرف ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے بلکہ اس سیاست سے قومی اداروں کی بھی تضحیک ہوئی اور پی ٹی آئی کی اپنی سیاست کو بھی بٹہ لگ چکا ہے جبکہ ملک دشمن عناصر کو الگ انتشار پھیلانے کا موقع مل رہا ہے۔ بے شک وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے لانگ مارچ کے پرامن رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے جو صوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری بھی ہے تاہم لانگ مارچ کے شرکاء کو بھی پرامن رہنے کی ضرورت ہے‘ اگر احتجاج کی آڑ میں میں افراتفری‘ جلائو گھیرائو کی سیاست کرنا مقصود ہے تو ریاست اسکی کیونکر اجازت دیگی اس لئے مارچ کو سیاست کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ عوام بلیم گیم اور انتشار کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں اور ملک بھی ایسی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہتر ہے پرامن رہ کر احتجاج کیا جائے تاکہ سسٹم کو کوئی گزند نہ پہنچے۔