خفیہ دولت کے اظہار کے سلسلے میں جو اعداد و شمار عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں وہ واضح کرتے ہیں کہ ملک بھر میں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں۔ ان کے دولت جمع کرنے کی ہوس میں خاص کر ان حالات میں کہ رشوت ستانی، احباب پروری، جلب ِ منفعت، بے انصافی اور دھاندلی کا ہولناک سلسلہ مسلسل برپا ہے۔ اہل وطن کی اکثریت کی بے چار گی کی عبرت ناک کیفیت کو دیکھنا ہو تو، مملکت کے چھوٹے بڑے شہروں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں کے بدتر حالات کو بہتر نہیں کہہ پائیں گے، شہروں سے ہٹ کر دیہات کی طرف چلیں جائیں تو وہاں کی حالت جس قدر ناگفتہ بے سامنے آئی گی کہ شہروں کے رہنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، اگر ان لوگوں کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے تو ایسا کرب انگیز نقشہ سامنے آتا ہے جس سے ہر قلب حساس خون ہو کر آنکھوں کے راستے بہہ جاتا ہے، ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے یہاں کتنی فیصد آبادی ہے جسے دو وقت پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں ملتا۔
کتنے لوگ ہیں جنہیں تن ڈھانکنے کو کپڑا میسر نہیں، کتنے مریض ہیں جو دوا دارو نہ ملنے کی وجہ سے قبروں میں جا پہنچے، کتنے خاندان ہیں جن کے پاس مردے کی تجہیز و تکفین تک کا سامان نہیں ہوتا، کتنے بچے ہیں جو مناسب غذا (دودھ وغیرہ) نہ ملنے کی وجہ سے کمزور رہ جاتے یا مر جاتے ہیں، کتنے ہیں جو، ذرا بڑے ہو کر، اسکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم اور آوارہ بن جاتے ہیں۔ کتنے گھرانے ہیں جن میں ان لڑکیاں کو مناسب بَر نہ ملنے کی وجہ سے بڑھاپا دیکھنے کو ملتا ہے، کتنے ایسے خاندان ہیں کہ جن کے پاس اتنا بھی نہیں ہوتا کہ وہ جوڑے کپڑے دے کر بیٹی کو گھر سے باعزت طریقے سے رخصت کرسکیں، کتنی شادی شدہ لڑکیاں ہیں جو مساعدؒحالات، مناسب خوراک یا انسانوں جیسا سلوک نہ ملنے کی وجہ سے نسوانی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کتنی بیوائیں ہیں جن کے پاس سامان ِ زیست تو ایک طرف ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑے تک نہیں، کتنے یتیم ہیں جن کا پُرسان حال نہیں، کتنے لاوارث بوڑھے ہیں، جن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی کے باقی سانس پورے کس طرح کئے جائیں، اگر یہ کوائف معلوم کرنے کے لئے پورے ملک کا نہیں، کسی ایک شہر یا گا¶ں کا جائزہ لیا جائے تو ایسے درد انگیز سامنے آئیں جنہیں شاید ہی کوئی چشم بینا برداشت کرسکے گا۔
یہ تصویر کا ایک عبرت ناک رخ ہے تو دوسرا چہرہ بھی ڈھکا چھپا نہیں، بڑھتی ہوئی فاقہ مستیوں کے مقابلے میں ملک کے نو دولتی خاندانوں کی عیش سامانیوں اور لوٹ کھسوٹ کے قہقہے بھی ہیں، جائزہ لینا ضروری ہے کہ ملک میں کتنے خاندان ایسے ہیں جن میں سے ایک ایک کے پاس بیسوں (مکانات نہیں بلکہ) محلات ہیں جن میں محلے کا محلہ آباد ہو سکتا ہے، کتنے امرا ءایسے ہیں کہ جن کے کتوں پر جو کچھ صرف ہوتا ہے اس سے کتنے غریب گھرانے پل سکتے ہیں، کتنے دولت مند ایسے ہیں جن کے ہفتہ بھر کے تفریحی خرچ سے شہر بھر کے لا علاج مریضوں کو دوا دارو مل سکتا ہے کتنے نو دولتی خاندان ایسے ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے پاس کس قدر دولت جمع ہے اور اس میں ہر روز کتنا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ایک طرف غربت و افلاس کے ویرانیاں اور دوسری طرف دولت و سرمایہ کی ریل پیل سے پیدا شدہ ناہموار یوں کا ایسا نقشہ جسے کوئی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اس معاشرتی زبوں حالی اور اخلاقی گرا¶ٹ کے اسباب پر تفصیل سے کوئی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب اچھی طرح اس کے اسباب سے آگاہ ہیں۔
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزہ ا ہم سے پوچھئے
ایک صاحب تقریر فرما رہے تھے کہ ”اتفاق“ میں بہت نقصانات ہیں، ان کے مطابق کہ دیکھو! اتفاق سے ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور سینکڑوں جانیں تلف ہو جاتی ہیں، اتفاق سے مکان گر جاتا ہے اور اتفاق سے پورے کا پورا خاندان نیچے آکر مر جاتا ہے، اتفاق سے آدمی کا پا¶ں پھسل جاتا ہے اور اسے کتنی چوٹیں آ جاتی ہیں، وغیر ہ وغیرہ، یہ تو تھے اتفاق کے نقصانات۔ اسے لطیفہ سمجھ کر درگزر کردیں لیکن ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بعد احترام انسانیت بچی ہی نہیں جو خود انسانیت کی جان کہلائی جاتی ہے، یاد رکھیں کہ کوئی تہذیب جس کی بنیاد احترام ِ انسانیت پر نہ ہو پھل پھول نہیں سکتی اور جلد ہی زوال پذیر ہو جاتی ہے لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اقتدار پسند لوگ اپنے جھوٹے اقتدار کو قائم یا حاصل کرنے کے لئے کشت و خون کا جواز پیدا کر لیتے ہیں۔ اسلام جس نے احترام ِ انسانیت کا سبق دے کر انسانیت کو اخلاقی بلندیوں پر چڑھایا، اس اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں جب ایسے واقعات سامنے آئیں گے تو طبیعتیں یقیناََ پریشان ہوں گی۔
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے