حضرت غوث الاعظم کے حوالے سے القادری ،قائداعظم

معزز قارئین ! سلسلہ قادریہ کے بانی۔ حنبلی عالم اور واعظ۔ حضرت محی الدّین ، محبوب سبحانی ، غوب الثقلین، حضرت غوث ِ الاعظم کی پیدائش 470ھ 1077ءمیں اور وفات 10 ربیع الثانی 561ھ۔ 11 اپریل 1162ءکو ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے اور آپ کو ” حسینی“ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت غوث الاعظم خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت معین الدّین چشتی کی والدہ ماجدہ سیّدہ ماہ نور المشہور ام الورع کے ”ہمشیر زادہ“ تھے۔ 
مَیں آج کے کالم میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاسکتا۔ صرف ایک نکتے پر گذارش کر رہا ہوں کہ ”بابائے قوم، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی کے حوالے سے القادری تھے۔ مَیں کئی بار بیان کر چکا ہوں کہ ”حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے آباءاجداد لوہانہ ”گوت“ (Sub-Caste) کے راجپوت تھے۔ 
” شرفِ قبولیت ِ اسلام ! “ 
2013ءکے اوائل میں ماہر قانون و تعلیم و دانشور اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن جناب آزاد بن حیدر کی کتاب ”تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سیّد احمد خان سے قائداعظم تک “۔ میں لکھا ہے کہ ”1938ءمیں مسلم لیگ پارٹی کے ارکان کے اجلاس میں قائداعظم، حاجی سرعبد اللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، مولوی سیّد غلام بھیک نیرنگ، جناب محمد نعمان اور حاجی عبدالستار موجود تھے، جہاں قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ”میرے آباءاجداد لوہانہ راجپوت تھے۔ یہ پنجاب کے بعض حصّوں بالخصوص ملتان میں ابھی تک آباد ہیں۔ میرے موروثِ اعلیٰ حضرت غوث الاعظم کے خاندان کے ایک معزز فرد پیر سیّد عبدالرزاق صاحب کے ہاتھ پر مشرفِ بہ اسلام ہوئے تھے۔ تجارت ان کا پیشہ تھا ، اِس وجہ سے وہ خواجہ کہلاتے تھے لیکن بعد میں یہ لفظ بگڑ کر خوجہ ہوگیا! “۔
” اہل بیت /غوث الاعظم ! “ 
معزز قارئین! غوث الاعظم صرف بلند پایہ روحانی پیشوا ہی نہیں بلکہ ایک جلیل القدر شاعر بھی تھے۔ مَیں فی الحال ثواب کے لئے آپ کے صرف دو شعر پیش کر رہا ہوں .... 
غلام، حلقہ بگوشِ رسول و ساداتم!
زہے نجات نمودن، حبیب آیا تم! 
.... O ....
ترجمہ:۔ (ملّت اسلامیہ سے مخاطب ہو کر غوث الاعظم نے فرمایا کہ ”مَیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور جملہ سادات کا دست بستہ غلام ہوں۔ ہماری نجات کے لئے یہ کتنی محبوب نشانیاں موجود ہیں؟)۔
کفایت است، ز روح رسول و اَولادش!
ہمیشہ درِ دو جہاں، جملہ مہماتم!
.... O .... 
ترجمہ: ( غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ ”رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی اولاد کی ارواح فتوح، دونوں جہاں کے امور کے لئے جملہ مہمات کے لئے کفایت کرنے والی ہیں )۔ 
” علاّمہ اقبال!“ 
عاشقِ رسول ، علاّمہ اقبال کے موروثِ اعلیٰ "Suproo" گوت (Sub-Caste) کے ہند براہمن اور ان کے قبیلے نے بھی اِسی طرح اسلام قبول کِیا تھا۔ 
معزز قارئین! علاّمہ اقبال جب وکالت کرتے تھے تو وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد وکلاءمیں تقسیم کردیتے تھے۔ 
معزز قارئین! یہ گویا علاّمہ صاحب کا اپنے دوست / شاگرد وکلاءسے ایک طرح کا رشتہ مواخات تھا۔
” برادرانِ قائداعظم! “
معزز قارئین ! قائداعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل پاکستان کا منصب سنبھالا تو ان کے چھوٹے بھائی احمد علی جناح بمبئی سے کراچی آئے اور گورنر جنرل ہاﺅس میں قائدِ اعظم سے ملاقات کی اور پوچھا۔ ”آپ گورنر جنرل کی حیثیت سے میرے لئے کیا کر سکتے ہیں؟“۔
 قائد ِاعظم نے جواب دِیا۔
 ”مَیں تمہارے لئے اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کہ تم پاکستان میں عام لوگوں کی طرح رہ سکتے ہو!“۔ 
جناب احمد علی جناح ناراض ہو کر بمبئی واپس چلے گئے۔
” مادر ِ ملّت ! “
معزز قارئین ! قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے برادرِ عظیم کے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھال کر قائداعظم نے اپنی ہمشیرہ محترمہ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن 2 جنوری 1965ءکو جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان (صدر پاکستان کنونشن مسلم لیگ) کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح ”پاکستان مسلم لیگ کونسل“ کی امیدوار تھیں، پھر متحدہ اپوزیشن نے بھی انہیں اپنا امیدوار مقرر کردِیا تو ”مفسرِ نظریہ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ” مادرِ ملّت“ کا خطاب دِیا تھا۔ 
” عظیم ترین لوگ !“
 حضرت غوث الاعظم، شیخ عبدالقادر جیلانی۔ علاّمہ محمد اقبال اور ”بابائے قوم“ قائداعظم محمد علی جناح کو تاریخ میں بہت یاد کِیا جاتا ہے۔ ان کی سالگرہ ، عرس اور برسی بھی منائی جاتی ہے۔ یہ بھی بہت بڑا کام ہے۔ 
معزز قارئین ! وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1992ءسے میرے دوست سیّد انور محمود گیلانی نے یکم رمضان 2008ءسے ہر سال اسلام آباد کی مصروف ترین شخصیات کو ”دعوت ِ افطار“ میں مدّعو کرنا شروع کِیا تھا جو بعد میں ”کرونا وائرس“ (Coronavirus) کے باعث ختم کردِیا گیا تھا۔ 
یکم رمضان 1440ھ 6 مئی 2019ءکو سیّد انور محمود صاحب کی ” دعوت ِ افطار “ پر میں نے اپنے کالم میں حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ شعر بھی درج کِیا تھا۔ فرماتے ہیں.... 
سی صدوشصت نظرر اتبہ بندہ راست!
بندہ را مرتبہ بنگرز کجاتا بہ کجاست!
....O....
یعنی ”(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ) میں اپنے بندے پر ہر روز تین سو ساٹھ (360) مرتبہ نظر ڈالتا ہوں، تاکہ اس بات سے اندازہ لگاﺅں کہ میرا بندہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے“؟ پھر کیا ہوا؟۔ سیّد انور محمود گیلانی نے اپنے کئی دوستوں میں ”دیوانِ غوث الاعظم“ سیّد عبدالقادر جیلانی کے کئی نسخے تقسیم کئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ ”اثر چوہان بھائی! آپ کو اِس کا ثواب ضرور ملے گا !“۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن