بلا تردّد اسرائیل کی چیرہ دستیوں کی داستان بڑی طویل ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ درندگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود امن عالم کے نام نہاد ٹھیکیداروں (یو این او) اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھ کا تارابنا ہوا ہے۔
صد افسوس کہ اسرائیل وہ انٹرنیشنل کھلاڑی ہے کہ جس کی تحویل میں نیوکلیائی اسلحہ ہے اور اس نے مسلم علاقوں پر ایک عرصہ سے غاصبانہ قبضہ بھی کر رکھا ہے۔
انبیاءعلیہم السلام کی سرزمین پر غاصبانہ صہیونی تسلط کے بعد سے آج تک فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے ہیں۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال نے ہر حساس شخص کو متاثر کیا ہے۔ وائرل ویڈیوز میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے گوشت کے ٹکڑے آسمان کی جانب اٹھا اٹھا کر اللہ رب العزت کو گواہ بنا رہے ہیں۔ کئی معصوم پھول و کلیاں کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئیں۔ راکٹ میزائلوں کی دہشت بھری گونج سے بچے گھنٹوں گھنٹوں کانپتے رہے۔ ہلاک ہو اسرائیل کہ جس نے ہسپتال پر ہی راکٹ داغ دیا۔ اتنے دلخراش مناظر کہ روح کانپ جائے۔
مقام شکر ہے کہ کم از کم ہم دل میں مذمت کر رہے ہیں اگرچہ یہ کمزور ترین ایمان ہے لیکن قوت و طاقت بھی تو میسر ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم براہ راست انسانیت کے دشمن کو للکار نہیں رہے۔ مذہب تو ایک سائیڈ پر رہا۔ ہم نے صرف اور صرف جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دینے پر اکتفا کیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک نعرہ ہے کہ یا اللہ مظلوم فلسطینیوں پر ابابیلوں کو بھیج یا فرشتوں کا نزول فرما۔ 55 سے زائد اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 2020 کے ایک اندازے کے مطابق اسلام کے پیروکاروں کی تعداد 1.9 بلین ہے جو کہ اب یقیناً تجاوز کر چکی ہوگی۔۔۔ مگر بے بسی تو ملاحظہ کیجئے کہ مجال ہے غزہ میں امداد اور جنگ بندی کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام کر سکیں۔ یقین کیجئے کہ اگر اس سوشل میڈیا کے دور میں ابابیلیں آسمان سے اتریں تو وہ نام نہاد منافقت سے معمور مسلمانوں کو کنکر ماریں۔ ضحی شبیر نے کمال کی ترجمانی کی کہ
یہودی اجاڑے اقصی، غم دل میں رہتا ہے
ہائے غیرت مسلم آخر کب ہو گی بے دار
فلسطین چیخ چیخ کر اک سوال کہتا ہے
انبیاءکا مسکن، تیرا قبلہ اول تیری شان
بارود کی بو پھیلے، اکثر یہاں لہو بہتا ہے
مٹھی بھر یہودی تیری غیرت کو للکاریں
مسلم جھکنا تیری غیرت کو زیب دیتا ہے
اب تیرے مسلمان ہونے پر بھی افسوس
القدس بھی ہر لمحہ ظلم، نفرت سہتا ہے
اقبال کا انتقال 1938ءمیں ہوا اور اسرائیل 1948ءمیں بنا لیکن اقبال مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔
علامہ اِقبال کے مجموعہ کلام ’ضرب کلیم‘ میں ایک نظم ’شام و فلسطین‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟
قارئین ذرا غور کیجئے کہ مودی اور نیتن یاہو کا سیاسی پینترا تقریباً ایک ہی ہے۔ ایک ماڈل اسرائیل نے متعارف کروایا اور ٹیسٹ کے لیے بھارت کو چنا۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہدایات دیں، اسلحہ فراہم کیا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تاکہ دنیا سے رابطہ منقطع کیا جا سکے اور مودی کی فرعونیت پس پردہ رہے۔ آتنگ واد آپریشن کے نام پر کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ آج سے تقریباً تین سال قبل ایک خبر آئی تھی کہ مقبوضہ وادی میں ایک سرنگ میں سے نہ جانے کتنی لاشیں مردوزن کی برآمد ہوئی ہیں۔ حریت رہنماو¿ں کے بیانات بھی منظر عام پر نہیں آ رہے۔
یقین کیجئے کہ ایسا گمان ہوتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی مسلم نہیں بچا۔ بھارت اپنے ریٹائرڈ فوجی افسران کو وہاں گھر دے کر اور ڈومیسائل جاری کرکے دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ جیسے یہ کشمیری ہیں اور وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں۔ قارئین اگر فلسطین و کشمیر کا موازنہ کیا جائے تو صاف واضح ہوگا کہ بھارت سفاکیت میں بازی لے گیا ہے اور اسرائیل کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اب ہم کس پر روئیں فلسطین پر یا مقبوضہ کشمیر پر۔۔۔ حل نکل سکتا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی آبادی کا 24.7 حصہ یعنی ہر مسلمان اقوام متحدہ کو خط لکھے اور فلسطین میں جنگ بندی کا پرزور مطالبہ کرے۔ مطالبہ کیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر سے دنیا کا طویل ترین کرفیو اٹھا دیا جائے تاکہ حالات و واقعات معلوم ہو سکیں۔ نیز سوشل میڈیا پر ایک ہیجان برپا کر دیا جائے۔ مجھے حیرت خالصہ پنت کے ماننے والوں پر بھی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق دنیا میں جہاں ظلم ہو رہا ہوتا ہے وہ مظلوم کے لیے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ یہ بات مجھے ایک سکھ بھائی نے بڑے وثوق سے کہی تھی۔
فلسطین پر روئیں یا مقبوضہ کشمیر پر۔۔۔
Nov 11, 2023