خورشید شاہ کے خدشات اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ!!!!

پاکستان پیپلز پارٹی کو نجانے کیوں لگتا ہے کہ انہیں آئندہ عام انتخابات کے بعد حکومت میں حصہ نہیں ملے گا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے لیکن پھر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کو کسی انجانی چیز کا خوف ضرور ہے اور اس خوف کا اظہار وہ ہر روز کرتے ہیں۔ کبھی آصف علی زرداری کبھی بلاول بھٹو زرداری کبھی فیصل کریم کنڈی کبھی سید یوسف رضا گیلانی اور کبھی کوئی اور نمایاں سیاست دان اس حوالے سے بات چیت کرتا ہے۔ اب سید خورشید شاہ نے بھی خدشات کا اظہار کر دیا ہے۔ سید خورشید شاہ کہتے ہیں کہ "ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ وزیراعظم اس کا ہو لیکن اگر کسی کو زبردستی اقتدار پر بٹھایا گیا تو اس سے ملک کا نقصان ہو گا۔ وزیراعظم ہاو¿س آج بھی ان کے ہاتھ میں ہے جن کے ہاتھ میں پہلے تھا۔ سیاسی جماعتوں کا استحقاق ہے کہ وہ اتحاد کریں یا الگ الگ الیکشن لڑیں لیکن کسی کو زور زبردستی لایا گیا تو حکومت نہیں چلے گی۔ دنیا بھر میں ووٹ ڈالتے وقت کسی کی مداخلت نہیں ہوتی، پیپلز پارٹی الزام تراشی کی سیاست نہیں کرتی، الیکشن میں ہمارا گھوڑا اکیلا ہے، ماضی میں بھی پنجاب کے عوام پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ نواز شریف چار دن جیل چلے جاتے تو ان کا قد بڑھ جاتا۔ ترقی کے دعوے کرنے والوں نے موٹرویز بنانے کے علاوہ کیا کیا ہے؟ اگر کسی کو زبردستی اقتدار میں لایا گیا تو اس سے ملک کا نقصان ہو گا۔" مجھے علم ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی والے ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ انہیں ایک خوف تو لاحق ہے لیکن کیا پیپلز پارٹی کی قیادت عام آدمی کو بتا سکتی ہے کہ انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا کیا حال کر دیا ہے، انہوں نے پاکستان سٹیل مل کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ انہوں موٹرویز بنانے والوں کو طعنہ تو دیا ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں کہ بالخصوص گذشتہ پندرہ برس کے دوران انہوں نے سندھ کے لوگوں کے ساتھ انصاف کیا ہے، کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ جب سے وہ سندھ پر حکومت کر رہے ہیں اس عرصے میں سندھ کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ ہوا یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کے غریب لوگوں کا استحصال ہی کیا ہے۔ کہنے کو بہت سی باتیں ہیں یہ جیل جانا کسی سیاست دان کا کریڈٹ یا باعث فخر نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اس حوالے سے معصوم اور سادہ لوح پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلتی ہے۔ یہاں کون ملکی سلامتی کے لیے جیل گیا ہے۔ سب پر بدعنوانی یا اسی طرح کے دیگر الزامات لگے ہیں۔ کہیں درست کہیں غلط لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ایسا ہوتا ہے کہ عام آدمی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رہتا ہے لیکن سیاست دانوں کے اثاثے بڑھتے رہتے ہیں ایسا شفافیت میں تو ممکن نہیں اگر نظام میں شفافیت ہو تو پھر ترقی کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچیں لیکن ایسا نہیں ہے ۔ سندھ کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں معاملات اور بھی زیادہ خراب ہیں اس لیے شاہ صاحب کو دوسروں کو طعنے دینے کے بجائے اپنی جماعت کی کارروائیوں اور کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر انہوں نے موٹر ویز بنائی ہیں تو آپ بھی کچھ بنا دیں۔ آپ کو کسی نے روکا ہے۔ کیا موٹر ویز سے اس ملک اور ملک کے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوا۔ آپ بھی ایسا بڑا منصوبہ شروع کریں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار کی سیاست کے بجائے عوام کی خدمت کی سیاست شروع کرے ، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ الزامات کے بجائے حقیقت کی دنیا میں آئیں اور عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ وزیراعظم ہاو¿س میں کبھی آپ کا بندہ ہوتا ہے کبھی کسی اور کا یہ آنا جانا لگا رہتا ہے اس پر دکھی نہ ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کی جماعت کو حصہ ضرور ملے۔ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ماضی کی طرح حصہ آپ کی خواہش کے مطابق نہ ملے لیکن حصہ ضرور ملے گا۔ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی وجود نہیں اور پی پی پی کی قیادت اس حقیقت سے واقف ہے لیکن انہوں نے پنجاب میں واپسی کے لیے کچھ کیا ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ وہ سندھ تک محدود ہوئے ہیں اور ملک بھر میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے بیانات کے بجائے عام آدمی کی خدمت کریں ، ان کے مسائل حل کریں اور یہ سلسلہ وہ سب سے بہتر انداز میں سندھ سے ہی شروع کر سکتے ہیں۔ سو شاہ جی بیانات سے نکلیں اور عام آدمی کی خدمت کا سوچیں۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلٰی کیسے آتے ہیں خورشید شاہ یہ بھی جانتے ہیں اس لیے غیر ضروری چیزوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کچھ تعمیری سوچیں، کچھ تعمیری کام کریں۔ 
آخر میں بیدم شاہ وارثی کا کلام
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے
تری ز±لف و ر±خ کا فریفتہ کہیں ص±بح ہے کہیں شام ہے
ترے اِک نہ ہونے سے ساقیا نہ وہ مے نہ شیشہ و جام ہے
نہ وہ صبح اب مری صبح ہے نہ وہ شام اب مری شام ہے
نہ تو چکھنا جس کا عذاب ہے نہ تو پینا جس کا حرام ہے
سر بزم ساقی نے دی وہ مے کہ سرور جس کا مدام ہے
میں دعائیں دوں تو وہ گالیاں کریں بات بات پر بھبتیاں
یہ عجیب طور و طریق ہیں یہ عجیب طرز کلام ہے
وہ ستم سے باز نہ آئیں گے یوں ہی ظلم کرتے ہی جائیں گے
انہیں کیا مرے کہ جئے کوئی انہیں اپنے کام سے کام ہے
مرا دل دہلنے لگا ابھی دو گھڑی تو دور ہے ہم نشیں
خبر وصال نہیں سنی یہ مری قضا کا پیام ہے
بچے کس طرح سے مریض غم نہ تم آ سکو نہ بلا سکو
یہی حالتیں ہیں تو دیکھنا کوئی دم میں قصہ تمام ہے
پسے دل ہزاروں تڑپ گئے جو سسک رہے تھے وہ مر گئے
اٹھے فتنے حشر بپا ہوا یہ عجیب طرز خرام ہے
عجب عاشقوں کی نماز ہے نیا بیدم ان کا نیاز ہے
کہ قیام ہے نہ قعود ہے نہ تو سجدہ ہے نہ سلام ہے
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن