کیا انڈسٹری کی بندش سے سموگ بند ہوگی؟


محمد رمضان چشتی 
ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی، صنعتی یونسٹ، بھٹوں، گاڑیوں کے خلاف کارروائی 
چین کی طرح فیکٹریوں میں آلات نصب کئے جائیں، صنعتکار
گردوغبار اڑانے والی گندی سڑکیں فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ہیں
پاکستان پر بھارت میں جلنے والی فصلوں کی باقیات کا براہ راست اثر
سموگ کی صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ اور حافظ آباد میں ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ فیکٹریاں بند نہیں کر رہے تاکہ مزدور کا چولہا جلتے رہے، لاہور کی زمین کو ماحولیاتی ریسٹ کی اشد ضرورت ہے، ماحولیاتی ایمرجنسی کے تحت ناگزیر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ بھارت میں پاکستان سے چار گنا زائد فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں، جس سے سموگ بڑھتی ہے، سرحد پار فصلوں کی باقیات جلانے کا براہ راست اثر ہم پر پڑ رہا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے ماحولیاتی آلودگی میں باغوں کا شہر لاہور پہلے نمبر پر جا رہا ہے، دوسرا نمبر دہلی کا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث سانس، ناک، گلے، پھیپھڑے سینے اور آنکھوں کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لاہور میں آلودگی، گردوغبار، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، موٹر سائیکل، رکشا، ٹرالیوں، چنگچیوں کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے صفائی کا خصوصی خیال نہ رکھنے کے باعث بادامی باغ، چوبرجی، سرکلر روڈ، ساندہ روڈ، بند روڈ اور دیگر سڑکیں گردوغبار سے اٹی ہوئی ہیں۔ حکومتی ادارے حالات کی سنگینی کے پیش نظر سرگرم نظر آتے ہیں اور گزشتہ 17 روز میں دھواں چھوڑنے والی 9972 گاڑیوں کے چالان اور دو کروڑ روپے جرمان کیا گیا۔ جبکہ دھواں چھوڑنے والی 3800 گاڑیوں کو بند کیا گیا سترہ روز میں لاہور ڈویژن میں1119 صنعتی یونٹس کو چیک کیا گیا اور ایمشن کنٹرول سسٹم کی خلاف ورزی پر119 کو سیل اور 35 لاکھ جرمانہ کیا گیا۔ لاہور ڈویژن کے تمام1190 بھٹے زگ زیگ پر ہیں، زگ زیگ کی خلاف ورزی پر 73 بھٹوں کے خلاف مقدمات اور 1190 میں سے 76 بھٹوں کو سیل کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے شمالی لاہور کے چار تھانوں میں ممنوع ایندھن بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
درخت اور پودے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا بڑا ذریعہ ہیں جبکہ یہ انسانی زندگی کو آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ درخت لگانے کے بڑے فوائد ہیں، یہ زمینی درجہ حرارت کنٹرول کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں اور ماحول کو ٹھنڈا رکھتے اور اس کی جڑیں لینڈ سلائیڈنگ میں روک تھام کرتی ہیں۔ حدیث پاک ہے کہ جو بھی مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا(بخاری شریف) درخت کی لکڑی تعمیراتی منصوبوں اور فرنیچر میں استعمال ہوتی ہے۔ ایندھن کی ضروریات بھی اس سے پوری ہوتی ہیں جبکہ درختوں کے پھل اور میوہ جات کی اپنی افادیت ہے اور یہ کاروبار اور تجارت کا بھی بڑا ذریعہ ہیں۔ ملک میں خاص طور پر لاہور اور گردونواح میں درختوں کا بے دریغ قتل عام جاری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پورا شہر کنکریٹ اور سیمنٹ سے ڈھک چکا ہے جس کے باعث نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ بلکہ درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ زیر زمین پینے کے صاف پانی کی سطح بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے اور زیر زمین آلودہ اور گٹروں کا غلیظ اور متعفن پانی پینے کے پانی میں شامل ہو کر مہلک امراض کا باعث بن رہا ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے ہنگامی اجلاس میں بھی سموگ سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کاشف انور، ڈائریکٹر جنرل انوائرمنٹ ظہیر عباس ملک، چیئرمین راوی انڈسٹری اونرز اینڈ ٹریڈز ایسوسی ایشن انعام الحق، جنرل سیکرٹری سجاد انور، ملک جاوید اقبال،ڈاکٹر شاہد استقلال انسپکٹر فہیم شاہ، وسیم لودھی نے سموگ کی بڑی وجہ گندی اور ٹوٹی سڑکوں پر اٹھنے والے گردوغبار کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کی معزز عدالت کو اس وجہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے، سڑکوں،گلیوں، بازاروں سے اڑنے والا گردوغبار فضا کو کثیف اور آلودہ کرتا ہے، اسی طرح دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ تاجر اہلکاروں نے کہاکہ زیادہ تر فیکٹریاں اور کارخانے تو بند پڑے ہیں، مزدور بے روزگار ہیں جو چل رہیں ہیں ان کا حال انکے مالکان سے پوچھا جائے کہ وہ کیسے چلا رہے ہیں جبکہ موٹر وے پر بھی فیکٹریاں کارخانے ہیں وہاں سموگ کیوں ہے؟ کیونکہ دھویں کے بغیر فیکٹری چل ہی نہیں سکتی چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی ہو۔ اگر لکڑی بھی جلائی جائے تو دھواں تو پھر بھی اٹھے گا۔ حکومت سوئی گیس کا پریشر کیوں نہیں بڑھاتی تاکہ کارخانے اور فیکٹریاں چل سکیں اور آلودگی سے بھی بچا جا سکے۔ صنعتکار اور تاجر حکومت کو اربوں روے کا ٹیکس دیتے ہیں کیاکارخانے بند ہونے سے سموگ بند ہو جائے گی؟ حکومت کو ٹیکس کہاں سے ملے گا؟ اوورسیز پاکستانی باہر سے آ کر ملک میں سرمایہ کاری کیسے کریں گے اور انڈسٹری کیسے لگائیں گے؟ آخر پر آنے والی حکومت آئی ایم ایف کی مقروض ہو کر ہاتھ میں کشکول پکڑے رہے گی۔ ہم اپنی بچی کچھی انڈسٹری بند نہ کریں۔ آخر بے روزگار محنت کش کہاں جائیں گے۔ کیا حکومت ان کا وظیفہ مقرر کرے گی؟ ظہیر عباس ملک سے گزارش ہے کہ ماحولیات کی بہتری کے لئے اقدامات بجا لیکن مالکان کو فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمسائیہ اور دوست ملک چین کی طرح فیکٹری مالکان کو فضائی آلودگی کنٹرول کرنے والے آلات لگا کر دے تاکہ صنعت کا پہیہ بھی چلتا رہے، مزدور بے روزگار نہ ہوں اور فضائی آلودگی بھی نے پھیلے۔جمعہ کی رات اور صبح ہونے والی باران رحمت نے مطلع صا ف اور شہروں سے کثافت دور کر دی جس نے سمارٹ لاک ڈاﺅن کی وجہ ختم کر دی۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...