رواں ماہ نومبر کا آغاز 2تاریخ کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں گرلز ہائی سکول ، سول ہسپتال چوک پر وہاں سے گزرنے والی پولیس موبائل پر خود کش حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں 9افراد شہید ہوگئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 35بتائی گئی ۔ دھماکہ کی زد میں آنے والے طلبہ وین میں سوار طالبات میں سے 5موقع پر جاں بحق ہوگئیں جن کی عمر یں 5سے 10سال بتائی جارہی ہے ۔ وین میں سوار دیگر طالبات کے بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات ہوئے ۔ دہشت گردوں نے بلوچستان میں بلوچ مزدور کا رکنوں کو نشانہ بنایا۔قبل ازیں صوبہ پنجاب سے بلوچستان میں مزدوری کے غرض سے جانے والے متعدد پاکستانی دہشت گردی کا نشانہ بنائے جاچکے ہیں ۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخواہ میں بھی دہشت گرد متحرک ہیں۔ دہشت گردی کے تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے ان واقعات پر ہر پاکستانی افسردہ ہے۔ بہت سے حضرات سوالات کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوپارہا۔ملک میں دہشت گردی کے جس عفریت نے 2001کے بعد سراٹھایا تھا۔ 2016تک بے پناہ جانی و مالی نقصان کے باوجود اس پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کی قیادت آپریشن کے دوران بچ جانے والے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان میں اپنے ان سر پر ستوں کے پاس منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے جو دہشت گردی کے حوالے سے انہیں تربیت کے علاوہ اسلحہ، گولابارود اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں ان کی معاونت کر رہے تھے ۔
جب ہم پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بدولت تاریخی طور پر بدترین غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ جس میں امریکہ سمیت بھارت کے عمل دخل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ ایک طرف بلوچ دہشت گرد ہیں جو بلوچ عوام کے حقوق کے نام پر معصوم پاکستانیوں کا خون بہارہے ہیں تو دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان جیسی کالعدم دہشت گرد جماعت ہے جو ملک میں نفاذ اسلام کا بیانیہ استعمال کرتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخواہ میں مسلمانوں کے ناحق قتل میں مصروف ہے۔ ان حالات میں ایسا نہیں کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی ہے اور دہشت گرد دنداناتے پھر رہے ہیں ہمارے سیکورٹی کے ادارے دونوں صوبوں میں دہشت گردوں کے خلاف انتہائی موثر انداز سے برسر پیکار ہیں۔جس میںہمارے خفیہ اداروں کے دلیر اور جانثار گمنام سپاہیوں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس سے ہم آرام بے خبر رہتے ہیں۔ میڈیا میں دہشت گردی کا واقعہ تو شائع اور نشر ہوجاتا ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کے بنیاد پر جاری آپریشنز کی وہ کاروائیاں منظر عام پر نہیں آتی جن کے تحت دہشت گردی کے بہت سے ایسے واقعات کو رونما ہونے سے قبل ناکام بنادیا گیا۔ البتہ وہ اطلاعات ضرور منظر عام پرآتی ہیں جب پاک فوج کے افسران و جوان دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔اس سلسلے میںآئی ایس پی آر سے درخواست ہے کہ وہ دہشت گردی کے ناکام بنائے گئے واقعات کو بھی عوام تک پہنچائے تاکہ عوام میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے موجود تاثر زائل ہوسکے۔ یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں ملک کے ان گمنام ہیروز کا نام سامنے نہیں آتا جو جان ہتھیلی پر رکھ کر سر پر کفن باندھے سفاک دہشت گردوں کی تلاش میں ان کی کچھار میں گھستے ہیں۔ مختلف روپ دھار کر ان کی کھوج لگاتے ہیں اور انہیں کی اطلاعات پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے ہمارے یہ گمنام ہیرو اپنے مشن میں کس طرح کی مشکلات سے گزرتے ہیں اگر قارئین ان حقائق سے آشنا ہوں تو ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں کہ کس طرح اپنے گھر بار ، والد ین اوربیوی بچوں سے لا تعلق رہتے ہوئے کوسوں دوربھیس بدل کرجب وطن پر قربان ہوتے ہیں توملک میں عام پاکستانیوں اور غیر متعلقہ افراد کو ان کا نام اور اس جدوجہد تک کا علم نہیں ہوتا جس کے سبب وہ اپنی جان دے کر دہشت گردوں تک کامیاب آپریشن کیلئے سیکورٹی اداروں کی رسائی کو ممکن بناتے ہیں۔
ہمارے ان گمنام جانثاروں کا مقابلہ ان دہشت گردوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صوبہ بلوچستان اور صوبہ کے پی کے میں افسانوی قسم کے بیانیے کے ساتھ وہاں کے عوام کے ذہنوں سے کھیلتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بلوچ عوام کے حقوق کا بیانیہ لے کر بلوچ دہشت گردبلوچستان میں دہشت گردی کرتے ہیں تو انہیں بلوچستان کے اندر ہمدرد اور سہولت کار دسیتاب ہوتے ہیں۔ حمایت کرنے والوں میں بدقسمتی سے وہ بااثر سردار بھی بعض اوقات ملوث ہوجاتے ہیں جو بلوچستان میں اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیںیااپنے سیاسی مخالفین کو اقتدار میں آنے کے بعد ان کی براستہ ایران و افغانستان سمگلنگ کے دھندوں کو زد پہنچتی ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میںبھی تحریک طالبان پاکستان کو اندرون خانہ ایسے سہولت کاردستیاب ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں نفاذ اسلام کی جنگ لڑرہی ہے ۔ علاوہ ازیں پاکستان کے خلاف اکیلا بھارت نہیں جو سی پیک منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ اس میں امریکہ کے علاوہ خطے کے دیگر کچھ ممالک بھی شامل ہیں جو گوادر بندرگاہ اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے مستقبل میں گوادر کے ساحلی شہر کو اپنے لیے چیلنج سمجھتے ہیں۔ اس کی خالفت پر تلے ہیں اور یہی تمام بیرونی قوتیں ہیں جو پاکستان کو معاشی طور پر کمزور اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتے ہیں۔ اور یہی قوتیں ہیں جو دہشت گردوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کے خلاف صف آرکیے ہوئے ہیں ۔
آج کے دور میں جب دہشت گرد سرحد پار سے پاکستان میں کاروائیوں کیلئے داخل ہوتے ہیں تو ان کے پاس ایسے جدید آلات ضرور ہوتے ہیں جن کے ذریعے ان کیلئے اہداف تک پہنچنا آسان ہوتا ہے ساتھ ہی سرحد پار وہ اپنے منصوبہ سازوں سے برائے راستے رابطے میں رہتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ ہدایات لے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے باجود ہمارے خفیہ اداروں کے گمنام سپاہی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہی وایتی ’’ہیومن انٹیلی جنس ‘‘کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل رہتے ہیں ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام جس میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں پاکستان میں مستقل قیام امن کیلئے متحد ہوجائیں ۔ جب پاکستان مستحکم ہوگا تو ملک میںخوشحالی آئے گی اور جمہوریت کو بھی دوام حاصل ہوگا۔