مجھے حضرت علامہ محمد اقبال سے بچپن سے ہی خاص لگائو ہے ۔میں آپؒ کو اپنا روحانی مرشد مانتا ہوں ۔ لاہورمزار اقبال پہ حاضری دینے جاوں تو میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کاش میری ان سے ملاقات ہو جائے۔ کہتے ہیں، خواب دیکھنے پہ کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ اور جس سے محبت ہو انسان کسی نہ کسی بہانے اُس شخص کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔کچھ دن پہلے خواب میں میری علامہ اقبال سے ملاقات ہوگئی۔دیکھتا ہوںکہ ایک صبح، سورج کی نرم روشنی ہے، میں حضوری باغ میں بیٹھا ہوا ہوں۔ اچانک میری نظر ایک پر وقار، روشن چہرے والے شخص پر پڑتی ہے، جو دھیمے قدموں سے میری طرف آرہے ہیں۔ انکی شخصیت میں ایسا وقار اور عظمت ہے کہ انہیں دیکھتے ہی احترام سے کھرا ہوجاتا ہوں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ہستی کوئی اور نہیں حـضرت محمد اقبال ہیں۔حضرت اقبال سے ملاقات کرتے ہوئے دل میں کئی سوالات اُبھرتے ہیں۔ فلسفہء خودی اور نوجوانوں کیلئے آپ کی سوچ کے بارے میں جاننے کی خواہش ہے۔ میں علامہ اقبال سے پوچھتا ہوں کہ ''فلسفہ خودی اور تصور ملت کے بارے کچھ بیان کیجیے۔' اقبال مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں، بیٹے، خودی انسان کی اصل طاقت ہے۔ جب انسان اپنی حقیقت کو پہچان لیتا ہے، تب وہ دنیا میں کوئی بھی کارنامہ انجام دینے کے قابل ہوتا ہے۔علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ مغربی تعلیم نے انسان کو مادیت کے دائرے میں قید کر دیا ہے اور روحانی ترقی کو فراموش کر دیا ہے۔ جبکہ، مشرق کی اصل طاقت اسکی روحانیت میں مضمر ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود کو پہچانیں، فرقوں اور گروہوں میں بٹنے کی بجائے،اعلی اخلاقیات کے حامل باکردار مومن بننے کی کوشش کریں اور ایک قوم بن کے کفار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوجائیں۔ علامہ اقبال سے اس خیالی ملاقات نے میرے اندر ایک نئی روشنی، ایک نئی جستجو پیدا کردی۔ مجھے محسوس ہوا کہ اقبال صرف شاعر مشرق ہی نہیں، بلکہ آپ کا کلام ساری دنیا کے لوگوں کیلئے ہے۔آج دنیا کے بہت سے ملکوں میں علامہ اقبال کو پڑھا جارہا ہے ۔علامہ اقبال ایک رہنما، ایک مفکر اور ایک عظیم انسان تھے۔ آپکے خیالات آج بھی ہمارے لیے راہنما ہیں، اور اگر ہم انکے افکار کو اپنائیں تو ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لا سکتے ہیں۔اگلی صبح آنکھ کھلی تو آغا سہیل کا پیغام موبائل سکرین پر ٹمٹما رہا تھا۔ راجہ صاحب! اقبال ڈے کی مناسبت سے علامہ اقبالؒ کے پوتے منیب اقبال گوجرانوالہ آرہے ہیں ، مقام اور وقت کے بارے میں بعد میں بتاوں گا۔آپ نے تقریب میں ضرور شرکت کرنی ہے ۔ہفتے کی صبح یاسر مشتاق مغل کے ہمراہ تقریب میں شریک ہوا۔فرزند اقبال منیب اقبال ہال میں تشریف لائے، میرے قریب سے گزرتے ہوئے رکے، سلام لیا اور بولے !میں آپکی تحریروں کو دیکھتا رہتا ہوں۔لکھتے رہو۔منیب اقبال سے ہاتھ ملاتے ہوئے ایسا لگا جیسے خواب سچ ثابت ہو چکا ہے اور میں واقعی حـضرت علامہ اقبال سے ہاتھ ملا رہا ہوں۔
منیب اقبال نے اپنے خطاب میںکہا کہ علامہ اقبال سچے عاشق نبی ؐ تھے۔ اقبال کے نزدیک عشق رسول ﷺ ہی ایمان کی بنیاد ہے، اور عشقِ رسول ﷺ ہی وہ طاقت ہے جو مسلمان کو سربلند کر سکتی ہے ۔ اُنہیں فلاح و کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بار بار نبی کریم ﷺ کی محبت اور عظمت کو موضوع بنایا اور آپؐ کی سیرت کو ایک ایسی مشعل راہ قرار دیا جو ہر دور کے انسان کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔اُس وقت کے مسلمانوں کے زوال اور غلامی پر اقبال نے کڑھتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان نبی کریم ﷺ کی محبت اورآپؐ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کر لیں تومایوسی اور غلامی کا دور ختم ہو سکتا ہے۔اقبال نے اپنی نظموں میں عشق نبی ﷺ کو مسلمانوں کیلئے ایک قوتِ محرکہ کے طور پر بیان کیا ۔ اقبال کے نزدیک عشق نبی ﷺ محض ایک مذہبی جذبہ نہیں بلکہ ایک انقلابی قوت ہے جو مسلمان کو خودی اور غیرت کے بلند مقام پر لے جاتی ہے۔ آپکی شاعری کو سمجھنے کیلئے ہمیں ان حالات سے آگاہی ہونی چاہیے ۔ جب آپ نے ہوش سنبھالا۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستاں سے مغل بادشاہت ختم ہو چکی تھی۔ترک خلافت آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔علامہ اقبال کی خوش قسمتی کہ گھر ،مدرسے اور پھر کالج و یونیورسٹی ہر کہیں آپ کو بہترین استاد میسر رہے ۔آپ کی شاعری اور عوام میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انگریز گورنر نے آپ کو ’سر‘ کا خطاب دینے کیلئے بلایا تو آپ نے انکار کردیا۔ لیکن بار بار بلاوے کے بعد اس شرط پر خطاب لیا کہ اسی تقریب میں آپ سے پہلے ، آپکے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلما کا خطاب دیا جائے۔ یہاں یہ نقطہ بھی یاد رکھا جائے کہ حضرت اقبال نے نہ تو انگریز سرکار سے جاگیریں لیں اور نہ اپنے ہموطنوں کو انکے ہاتھ بیچنے کا جرم کیا بلکہ سر کا خطاب آپکی شاعری اور مسلمانوں میں مقبولیت کی وجہ سے دیا گیا۔ علامہ محمد اقبال کے تصور ملت میں قرآن اور سنت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔آپکے نزدیک قرآن ہی وہ کتاب ہے جو مسلمانوں کو انکے اصل راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اگر مسلمان قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لیں، تو وہ نہ صرف خود کو بلکہ ملت کو بھی بلند مقام پر پہنچا سکتے ہیں۔ اقبال مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبال اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے قربانی اور ایثار کا درس دیتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں ملت صرف ایک سیاسی یا جغرافیائی تصور نہیں ہے، بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی اجتماعیت ہے۔ انکے نزدیک جب تک مسلمان اپنے کردار کو اسلام کے اصولوں کیمطابق نہیں ڈھالیں گے، تب تک ملت کا حقیقی قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔ اقبال مسلمانوں کو اپنے اندر اخوت، محبت، اور بھائی چارے کے جذبات پیدا کرنے کا درس دیتے ہیں تاکہ ملت کا تصور حقیقت کا روپ دھار سکے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا حاصل یہی ہے کہ اگرمسلمان نبی کریم ﷺ کے عشق میں ڈوب جائیں اورآپؐ کی سیرت پر عمل کریں تو اُن کیلئے دنیا و آخرت میں کامیابی کے راستے کھل جاتے ہیں۔
علامہ اقبال سے ملاقات
Nov 11, 2024