منقسم معاشرہ

28 دسمبر 1947 کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو ایک مضبوط اور منظم معاشرہ بنانے کے لیے راہ نما اْصول "ایمان، اتحاد، نظم" طے کر دیے تھے۔ اِن زریں اْصولوں کا مقصد یہ تھا کہ ملت کا ہر ایک فرد ایمان ، اتحاد اور نظم کی مثال ہوتا اور پاکستان میں ایک مضبوط معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا۔ لیکن شاید ہم اِس معاملے میں زیادہ خوش قسمت نہیں تھے اور ایک مضبوط اور منظم معاشرے کی تکمیل کیلئے وہ کردار ادا نہ کرسکے جو ضروری تھا۔سات دہائیاں گذر نے کے بعد معاشرے کی تشکیل کے تناظر میں تین اہم سوال ہیں جو ہماری اجتماعی توجہ چاہتے ہیں۔ کیا ہم معاشرتی اعتبار سے تقسیم کا شکار ہیں ؟ کیا کوئی منقسم معاشرہ ترقی کرسکتاہے؟ اورمستقبل میں ترجیحی بنیادوں پر کیا اقدامات ضروری ہیں؟
درحقیقت پاکستانی معاشرہ کئی پہلوئوں سے تقسیم کا شکار ہے اور یہ تقسیم سماجی،ثقافتی ، سیاسی، معاشی اور مذہبی سطحوں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔منقسم معاشرہ  وہ ہوتا ہے جہاں افراد، گروہ یا طبقات کسی بھی ملک میں مذہب، مسلک، زبان، نسل، یا سماجی حیثیت کی بنیاد پر آپس میں بٹے ہوئے ہوں۔ یہ تقسیم نہ صرف  معاشرے میں تنائو کی کیفیت پیدا کرتی ہے بلکہ اکثر اجتماعی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ مختلف طبقات اپنے مفادات اور نظریات کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ اِختلاف کو ہوا دیتے ہیں۔پاکستان میں بڑے پیمانے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم دِکھائی دیتی جو قومی سطح پر قومی مفادات پر بھی اختلاف کا باعث ہوتی ہے جس سے صوبوں اور طبقوں میں سیاسی جھکائو کی بنیاد پر شدید تعصب جنم لیتا ہے اور یہ تعصب معاشرتی ہم آہنگی کے لیے منفی رْجحان کا باعث ہوتا ہے۔ پاکستان میں مختلف مذہبی فرقوں اور مسالک کے درمیان کشیدگی اور اختلافات کی وجہ سے معاشرتی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اِسکے علاوہ پاکستان میں مختلف زبانیں اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگ بستے ہیں جن میں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، اور اردو بولنے والے لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ مثبت سوچ کے حامل افراد معاشرے میں اِس تنوع کو اچھا خیال کرتے ہیں لیکن یہ لسانی تنوع بعض ناعاقبت اندیش عناصر کی بدولت  ملک کے طْول و عرض میں بسنے والے لوگوں کے مابین تعلقات میں تنائو کا سبب بھی بنتا ہے۔منقسم معاشرے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں امیراور غریب کے درمیان واضح معاشی فرق ہے اور یہ معاشی تفاوت ایک بڑی تقسیم کا باعث ہے۔اِسی طرح شہری اور دیہی علاقوں میں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی بھی ایک ایسا عنصر ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں شہری اور دیہی علاقوں میں لوگوں کے رہن سہن میں بھی نمایاں فرق ہے۔ شہری علاقے جدید طرزِ زندگی کے حامل ہیں جبکہ دیہی علاقے اب بھی روایتی اور قدیم طرزِ زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ تقسیم معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور طبقات کے درمیان کھچائو کا سبب ہے۔
منقسم معاشرہ کیوں ترقی نہیں کرسکتا ؟ اگر آپ چند ایسے ملکوں کی ترقی کے سفر کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہو گا کہ اْن کی ترقی کا راز اتحاد و یگانگت اور یکسوئی میں پنہاں ہے۔ منقسم معاشرے کی ترقی کے امکانات بہت سی وجوہات کے باعث محدود ہوتے ہیں۔ منقسم معاشرہ اکثر سماجی مسائل، تنازعات، بے اعتمادی، اور عدم برداشت کا شکار ہوتا ہے اور ایسے معاشرے میں ترقی کے راستے میں چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ منقسم معاشرے میں باہمی عدم اعتماد کی فضا ہوتی ہے اور ایسی صورتحال میں سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میںترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منقسم معاشرہ سیاسی عدم استحکام کو جنم دیتا ہے جس کی وجہ سے حکومت سازی جو کسی بھی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، ایک پیچیدہ عمل بن کر رہ جاتا ہے۔ذاتی اور گروہی مفادات قومی مفادات سے اہم ہو جاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔منقسم معاشرہ معاشی عدم مساوات کا سبب ہوتا ہے اور معاشی عدم مساوات معاشی ناہمواری اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم  جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اور اِس طرح وسائل سے محروم بڑے طبقے میںوسائل پر قابض چھوٹے  طبقے کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی ریاست کی ہم آہنگی اور اتحاد کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتی۔ معاشی عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم مختلف طبقات میں تنائو پیدا کرتی ہے۔
اِسکے برعکس ہم آہنگ اور یکسو معاشروں میں مختلف ثقافت، عقیدہ اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہم آہنگی اورباہمی احترام کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ اِن معاشروں میں برداشت، انصاف اور مساوات کو فروغ دیا جاتا ہے اور مختلف افراد یا گروہوں کے حقوق کو ریاستی تحفظ دیا جاتا ہے۔ چند ہم آہنگ اور یکسو معاشروں کی مثالیں کینیڈا، نیوزی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، ملائشیا، امارات (دبئی اور ابوظہبی)، برطانیہ اور سنگاپور کی ہو سکتی ہیں جہاں مختلف قوموں، ثقافتوں اور مذاہب کے لوگ دہائیوں سے باہم شیرو شکر زندگی گذار رہے ہیں۔ جہاں ہر ثقافت کو اپنی شناخت اور آزادی سے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق جینے کا حق حاصل ہے۔ اِن ملکوں میں حکومت اور معاشرہ دونوں ہی تنوع کو فروغ دیتے ہیں اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی اور احترام کو رواج دیتے ہیں۔ ملائشیا میں چینی اور بھارتی شہری بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں جو اپنے عقیدے اور ثقافت کے ساتھ باہمی احترام کے ساتھ رہتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں بھی مختلف ممالک سے آئے ہوئے مختلف قومیتوں، مذاہب، اور ثقافتوں کے لوگوں کے لیے باہمی ہم آہنگی اور قوانین کے تحت زندگی گذارنے کا انتظام کیا جا تا ہے۔ اِ ن ممالک میں حکومتیں وقتا فوقتا تنوع اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے قوانین اور پالیسیاں متعارف کرواتی رہتی ہیں۔
معاشرے میں تقسیم اور اختلافات کے خاتمے اور معاشرتی ہم آہنگی اور اتحاد و یگانگت کوفروغ دینے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟  1)تعلیم و آگاہی ایک اہم نکتہ ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تعلیم کے ذریعے لوگوں کو متنوع ثقافتوں، مذاہب اور سوچوں کا احترام سکھایا جائے اور تعلیمی نصاب میں ایسے موضوعات شامل کیے جائیں جو سماجی ہم آہنگی رواداری اور احترام کو فروغ د ے سکیں۔ 2) مختلف طبقات کے درمیان مکالمہ کا آغاز کیا جائے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی بات سنیں اور سمجھیں۔ اِس کے لیے تعلیمی ادارے اہم پلیٹ فارم ہوسکتے ہیں۔ خیالات کا اظہار آزادانہ اور مثبت ہو گا تو مسائل کے حل کی طرف بڑھنے میں مدد ملے گی۔ 3) قانون کی حکمرانی کو یقنی بنایا جائے اور قانون کومنصفانہ انداز میں نافذ کیا جائے تاکہ کسی بھی طبقے یا گروہ کو یہ احساس نہ ہو کہ اْن کو انصاف کے حصول میں دْشواری کا سامنا ہے۔ قانون کی عملداری عام لوگوں میں تحفظ کے احساس کو زندہ رکھتی ہے۔4) میڈیا کے مثبت کردار کو فروغ دیا جائے اور میڈیا کو ذمہ داری کے ساتھ معاشرتی ہم آہنگی کی ترویج کے لیے استعمال کیا جائے۔5)معاشی مساوات کے لیے غربت اور بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے کوشش کی جائے اور مختلف طبقات کو معاشی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ معاشی عدم مساوات کو کم کیا جا سکے۔ 6)ثقافتی تقریبات کا انعقاد کیا جائے اور تمام طبقات کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ 7)  خاندانی اور دینی اقدار کی اہمیت کو بھر پور طریقے سے اْجاگر کیا جائے اور ایسی اقدار جو معاشرتی اتحاد و یگانگت اور عزت واحترام کے کلچر کے لیے اشد ضروری ہیں اْن کو فروغ دیا جائے۔
ایک منقسم معاشرے کیمسائل کے حل کے لیے جامع کوششوں کی ضرورت ہے اور اْس کے لیے ریاست ، ادارے اور پورا معاشرہ  سٹیک ہولڈر ہے اِ س لیے سب کو مل کر معاشرے کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ایک مضبوط اور منظم معاشرے کے لیے علم و آگہی ،  باہمی احترام، اتحاد ویگانگت، مکالمہ،سماجی و معاشی مساوات  اور افہام و تفہیم انتہائی اہم ہیں۔ مضبوط اور منظم معاشرہ کسی بھی ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن ہو گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن