پاکستانی میڈیائی باووں کی پیشین گوئیوں کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ بھاری اکثریت سے امریکی صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں۔جن کی پیشین گوئیاں اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے وہ صدر ٹرمپ کی جیت کو امریکیوں کا متعصبانہ اور احمقانہ فیصلہ کہہ رہے ہیں جبکہ بعض اقوام عالم کے لیے خطرہ اور امت مسلمہ کے لیے قابل فکر حالات بھی قرار دے رہے ہیں۔جیسے کمیلا ہیرس تو دودھ کی دھلی ہوئی ہماری پھوپھو کی بیٹی تھی۔ حیرت ہے کہ کمیلا کی ہاراور خاتون امیدوار کے مسترد ہونے پر ماتم کرنے والے کیسے بھول گئے کہ ہیلری کلنٹن’ ہٹلرانہ ذہنیت کی مالک تھیں اور انھوں نے مشرق وسطیٰ کی تینوں جنگوں عراق،شام اور لیبیا کی ہمیشہ پرزورحمایت کی بلکہ وہ امت مسلمہ کے خلاف کی جانے والی پالیسیوں میں ہمیشہ معاون رہیں ہیں اور کمیلا ہیرس کے پاس بھی کوئی خاص منشور نہیں تھاوہی پالیسیاں تھیں جو کہ کسی طور امت مسلمہ کے حق میں بہتر نہیں ہو سکتیں۔ البتہ میں نے بارہا لکھا تھا کہ ٹرمپ ضرور جیتیں گے اور وہیں سے سیاست شروع کریں گے جہاں سے آغاز ہوا تھا ، اپنی شرطوں پر دنیا کوچلانے کی کوشش کریں گے جو کہ ممکن نہیں ہوگا اور اس کے بعد نئی جنگوں کا آغاز ہوگا۔ان کے بیانیوں سے ان کی پالیسیوں کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا مگر ان کے پہلے صدارتی دور میں ان کی ترجیحات کے واضح اشارے موجود ہیں۔
جیسا کہ صدر ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں پاکستانی حکمرانوں کو ان کی سخت پالیسیوں سے نپٹنے کے لیے جامع منصوبے کی ضرورت پیش نظر رہی کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں بھی شامل تھا لیکن پھر عمران خان سے دوستی کا کافی چرچا رہا بعد ازاں ماضی کے حکمران دونوں کی ذات کو برابر ہدف تنقید بناتے رہے اورآج کل ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جیسے ایک کال پر خان صاحب چھوٹ جائیں گے جبکہ وہ مکافات عمل اور انتقامی سیاست کا شکار ہیں بالآخر آزاد ہونا ہی ہے۔جہاں تک بات ہے امریکہ کی تو وہ سپر پاور کی گیم ہے ،ان کی پالیسیاں کسی شخص کے گرد نہیں بلکہ ریاستوں کے گرد گھومتی ہیں مزیدصدر ٹرمپ کامیاب بزنس مین ہیں جومفادات کی جنگ لڑتے ہیں، بگڑے ہوئے نواب ہیں جو جنگی باتیں کر تا ہے مگرخونیں جنگ نہیں کرتا لیکن اب صورتحال مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ جارحانہ رویوں کا سامنا کیا ہے۔ اپنے پہلے دور میں بھی انھوں نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے اقوام عالم پر ایک خوف طاری کر دیا تھا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ اسلام دشمن،نسل پرست اور بیباک انسان کے طور پر سامنے آئے تھے جیسے نریندر مودی نے اسلام دشمنی اور نسل پرستی کو بنیاد بنا کر انتخاب جیتا تھا اسی پالیسی کو بنیاد بنا کر ڈونلڈ ٹرمپ فتح یاب ہوئے تھے مزید براں آنییوالا وقت ہی ثابت کرے گا کہ وہ نیا ، کیاکریں گے کیونکہ پینٹا گون بھی آئندہ دیے جانے والے ان کے غیر قانونی احکامات کے لیے متفکر ہے۔امکانات تو یہی ہیں کہ وہ امریکہ کو تنازعات سے دور رکھیں گے۔ یوکرین کی جنگ بند کروانے کی مکمل کوشش کریں گے اگر روس کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے تو البتہ غزہ اور لبنان بارے کوئی حتمی بیان سامنے نہیں آیابلکہ انھوں نے خود کو اسرائیل کا حامی بتایا یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے منتخب ہونے پر ایران ،چین سمیت دیگر بہت سے ممالک کشمکش کا شکار ہیں کیونکہ انھوں نے بیجینگ کے ساتھ پہلے صدارتی دور میں بھی تجارتی جنگ شروع کر دی تھی اور ایران بارے بھی ان کی پالیسیاں سخت تھیں بایں وجہ عالمی مبصرین بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ عالمی عدم استحکام کو مزید بڑھا دیں گے۔
بہرحال وہ لوگ جو بھی کرتے ہیں عوامی مفاد میں کرتے ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں کی تگ و دو ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔یہی دیکھ لیں کہ ایک طرف میڈیا دودھ کی نہریں بہاتا ہے اور دوسری طرف بیروزگاری اور افراط زر سے ہونے والے نقصانات اور عوامی شکایات کی کی خبر یں چلتی ہیں مگر قوم سے خطاب میں صرف نہروں کا ذکرہوتا ہے۔اس ذکر خیر اور کرسی کے استحکام کے لیے محکموں میں جس طرح نقب لگائی جا رہی ہے کہ جیسے ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار دے اپنوں کو‘ بریں سبب جن لوگوں کو زیرو سے شروع کرنا تھا وہ ہیرو بنے پھر رہے ہیں مزید ایک اور کام جو کامیابی سے جاری ہے کہ جو لوگ ان نا انصافیوں اور غیر قانونی انتظامات کے خلاف زبان کھولنے کی جرات کر سکتے تھے ان کا منہ اس محاورے کے مصداق ’’جو دھن جاتا دیکھئے تو آدھا دیجیے بانٹ‘‘ دے دلا کر بند کر دیاگیا ہے لہذا اب کوئی بات کرتا بھی ہے تو زیادہ تر سر سرسری تنقید کر کے جمہوریت کی حفاظت کا عزم ضرورظاہر کرتا ہے۔
راقمہ ذاتی طور پر سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم ان پر تبصرے کرنے میں مشغول ہیں جو کہ خوف الہی اور اقتدار اعلیٰ کے وقار کی پروا ہی نہیں کرتے جن کا ایمان ’’اقتدار کی کامیابی‘‘ او ر مقصد حیات’’سپر پاور‘‘ کا ٹائٹل اپنے نام کرنا ہے جبکہ ہم تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں جس کا مطلب ہی ’’لاالہ الاللہ محمد الرسول اللہ‘‘ ہے اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف واحد اللہ تعالیٰ ہے اور حکمران اللہ کو جواب دہ ہیں پھر بھی یہاں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی طور بھی قابل ستائش یا اسلامی ریاست کے مطابق نہیں ہے تو ہم دوسروں کو زیر بحث کیوں لائیں۔
خدارا !وطن عزیز اور عوامی اعتماد کے ساتھ مذاق مت کریں کہ اپنے گھر میں رکھے ہوئے ایک جاندار کا حساب دینا مشکل ہے جبکہ آپ کے ذمے تو چھبیس کروڑ کا حساب ہے اسی لیے میری مبصرین و ماہرین سے استدعا ہے کہ آپ بین الاقوامی سیاست پر متفکر ضرور ہوں مگر اپنے حالات سے رو گردانی مت کریں کہ ہمیں خطرہ غیروں سے نہیں اپنوں سے ہے اس لیے میں ڈونلڈ ٹرمپ پر کیا کہوں کہ ان کی جیت جن حالات کی نوید سنا رہی ہے ایسے حالات سے تو کہیں نہ کہیں ہم پہلے سے ہی نبرد آزما ہیں کیا! نہیں ہیں۔۔؟ اگر ہیں تو۔۔ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔۔۔۔!
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
Nov 11, 2024