کسی یورپی مؤرخ نے ’’وطن‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا’’وطن کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اوّل: ایک خطہ زمین جسے وطن کہا جا سکے۔ دؤم: ہم خیال لوگوں کا گروپ جو اپنی مرضی سے اکھٹے رہنے پر متفق ہوں۔ تیسرا: اور سب سے اہم ایک مضبوط فوج جو اس خطہ ِ زمین کی حفاظت کر سکے۔‘‘فوج کے بغیر وطن کا تصوّر ہی نا ممکن ہے۔ کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ جس ملک کی اپنی فوج کمزور ہو گی وہاں دشمن کی فوج دندناتی پھرے گی۔ جب سے انسان روئے زمین پر آباد ہوا ہے جنگ انسانی فطرت کا حصہ رہی ہے۔ جنگ کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے ۔ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر بھی جنگیں چھڑ جاتی ہیں۔ دنیا کی پہلی جنگ ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک عورت کی وجہ سے شروع ہوئی۔ دو بھائیوں کے درمیان ہونے والی یہ جنگ وقت کے ساتھ ساتھ عالمی جنگ تک جا پہنچی اور انسانی تباہی کا موجب بنی۔ویسے تو انسان نے ہر میدان میں بہت ترقی کی ہے لیکن سب سے زیادہ ترقی جنگی ہتھیاروں میں ہوئی ہے۔موجودہ پوزیشن کے مطابق صرف امریکہ کے پاس انسانی تباہی کے اتنے ہتھیا رہیںکہ موجودہ دنیا کو کئی دفعہ تباہ کیا جاسکتا ہے۔
جہاں جنگ کا تصور آئے گا اس کے ساتھ حفاظت کا تصور پہلے ہو گا۔ ذاتی حفاظت ہو ، خاندان کی حفاظت ہو، قبیلے کی حفاظت ہو یا ملک کی حفاظت! جہاں ممالک اپنے آپ کو جنگ کیلئے تیار کرتے ہیں وہیں اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور یہ دونوں کام فوج کرتی ہے۔ وہ ہمارے لئے جنگ بھی کرتی ہے اور ہماری حفاظت کی ذمہ داری بھی نبھاتی ہے۔ انسانی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اُسکی حفاظت کا بندوبست نہ ہو۔ جنگ بھی حفاظت ہی کا ایک طریقہ ہے۔ عسکری تجزیہ نگاروں نے اِسی لئے کہا ہے: "Ofence is the best Defence" اس بنیادی انسانی ضرورت کے مدِ نظر روزِ اوّل سے لیکر آج تک ہر حکمران کی یہ کوشش رہی ہے کہ اُسکے پاس ایک مضبوط فوج ہوجو بوقتِ ضرورت اُسکی حکمرانی یا ملک کی حفاظت کر سکے۔فوج کو مضبوط اور نا قابلِ شکست بنانے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سب سے اہم چیز فوج کا’’ جذبہ‘‘ ہو تا ہے جو میدانِ جنگ میں فتح یا شکست کا موجب بنتا ہے۔ فوج کی تعدادکی اپنی اہمیت ہے لیکن فوج بغیر’’ جذبہ ‘‘بے کار ہے۔ اگر ماضی کی جنگوں پر نظر ڈالی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اکثر چھوٹی فوجوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا جیسے ’’پانی پت‘‘ کی جنگ میں بابر کی 12ہزار کی فوج ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ کے لشکر پر بھاری ثابت ہوئی۔ہر کمانڈر اورہر حکمران کی حتیٰ الوسع کو شش ہو تی ہے کہ فوج کا جذبہ(مورال) ہر حالت میں بلند رکھا جائے کیونکہ فوجی اصول کے مطابق "Morale is the single greatest battle winning factor."۔مورال بلند رکھنے کیلئے بہادر سولجرز کوہر قسم کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے بلکہ انہیں مختلف قسم کے ایوارڈ زسے بھی نوازا جاتا ہے۔ جیسا کہ کیش ایوارڈز،زرعی زمین یا میڈلز وغیرہ دئیے جاتے ہیں۔ انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو مقامی لوگوں کی مدد سے ایک شاندار فوج تیار کی جسے برطانوی ہند فوج کا نام دیا گیا۔اس فوج نے انگریزوں کو پورے ہندوستان کی حکمرانی دلا دی۔ یہ اتنی شاندار فوج تھی کہ اِسے ’’برطانوی تاج کا ہیرا‘‘کہا جاتا تھا۔ جہاں جہاں انگریزوں کو ضرورت پڑی اس برطانوی ہندی فوج کو استعمال کیا گیا۔ ان فوجیوں نے جانوں کے نذرانے دیکر انگریزوں کو اکثر مقامات پر فتح دلائی۔ان ہندی سولجرز نے بہادری کے شاندار کارنامے سرانجام دئیے۔ ایسے بہادر لوگوں کو انعام کے طور پر میڈلز دئیے گئے۔ جن میں سب سے اعلیٰ میڈل ’’وکٹوریہ کراس‘‘ تھاجو بہادر ترین سپاہی کو ملتا تھااور اِسکے ساتھ بہت سے مالی فوائد بھی منسلک تھے۔اس میڈل کا حصول ہر فوجی کا خواب تھا۔
پہلی جنگ عظیم میں جب جرمن فوج کا پریشر آیا تو برطانوی فوج سخت گھبرا گئی۔ مدد کیلئے ہندوستانی فوج منگوائی گئی۔ ایک پوری انڈین کور انگلینڈ بھیجی گئی۔ ان میں 129بلوچی بٹالین بھی شامل تھی جسے "Duke of Cannaught's own"کہا جاتا تھا۔موجودہ یہ شاید11 بلوچ کہلاتی ہے اور یہ پاکستان فوج کا حصہ ہے۔ اُس وقت فرانس اور بیلجئم کے علاقوں میں سخت جنگ جاری تھی اور انگریزوں کو ہر جگہ مار پڑ رہی تھی ۔ اکتوبر 1914ء کے آخری ہفتے میں بیلجئم کے ’’ہولے بک‘‘(Hollebeke) نامی علاقے میں جرمنوں نے حملہ کیا جس کا دفاع انگریزوں کوناممکن نظر آیا تو اُنکی مدد کیلئے 129بلوچی بٹالین کی دو کمپنیاں بھیجی گئیں۔ 31 اکتوبرکو جرمن فوج کی طرف سے سخت حملہ آیا اور انگریز فوج کو ہزیمت اُٹھانی پڑی۔129بلوچی بٹالین میں ایک خدادادخان نام کا مسلمان سولجر تھا ۔ انگریز فوج بمعہ ان بلوچیوں کے بُری طرح روندی گئی لیکن خداداد خان بہادری سے اپنے مورچے میں ڈٹا رہا۔ اس کی مشین گن ٹیم کے پانچ ممبر تھے جو یک بعد دیگر مارے گئے۔ اسکی کمپنی کے زیادہ تر لوگ مورچوں میں ہی مارے گئے اور کچھ پیچھے بھاگ گئے لیکن خداداد خان اکیلا لڑتا رہا۔ اس کے مشین گن فائر نے جرمنوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بالآخر ایک ڈائریکٹ گولہ آکر اسکے مورچے کے نزدیک گرا اور گولے کے ٹکڑوں سے خداداد خان زخمی ہو کر بے ہوش ہو گیا۔ اتنی دیر میں برطانوی فوج کی مزید فریش کمپنیاںبھی موقع پر پہنچ گئیں۔ جرمن جب خداداد کے مورچے کے پاس پہنچے تو سب کو مرے ہوئے پایا۔ وہ خداداد خان کوبھی مرا ہوا سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے لیکن رات کو خداداد خان کو تھوڑا سا ہوش آیا تو وہ زخمی حالت میں رینگ کر اپنے کمپنی ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا۔ یہ بہادری کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس پر اُسے’’ وکٹوریہ کراس‘‘ سے نوازا گیا اور یہ برطانوی ہندی فوج میں پہلا ’’وکٹوریہ کراس ‘‘تھا۔ خداد اد خان کا تعلق موضع ڈب ضلع چکوال موجودہ پاکستان سے تھا۔ وہ راجپوت گھرانے کے منہاس قبیلے کا فردتھا۔ فوج سے بحیثیت صوبیدار ریٹائرڈ ہوا۔اس کے کمانڈنگ آفیسر نے اسکی جنگی رپورٹ میں لکھا:
"On 31st October 1914 at Hollebeke the British Officer incharge of the detachment having been wounded and the other gun put out of action by a shell, Sepoy Khuda Dad Khan though himself wounded remained working his gun until all the other five men of the gun detachment had been killed"
خداداد خان82 سال کی عمر میں 8مارچ 1971ء کو فوت ہواا ور اِسے چک نمبر 25منڈی بہاؤالدین میں دفن کیا گیا۔سنا ہے اس کا مجسمہ پاکستان آرمی میوزیم کے گیٹ پر موجودہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم سولجر پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے اور جنت الفردوس میں اس کے درجات بلند کرے۔ آمین! پاکستان زندہ باد!
برصغیر کا پہلا ’’وکٹوریہ کراس‘‘
Nov 11, 2024