پیر‘ 8 جمادی الاول 1446ھ ‘ 11 نومبر2024ء

کپتان اسی ماہ کال دینگے‘ کفن باندھ کر نکلیں گے ،انہیں رہا کرائیں گے صوابی جلسہ سے مقررین کا خطاب۔
 کہیں پی ٹی آئی والے ٹرمپ کی طرف سے کوئی فون نہ آنے اور ایکشن نہ لینے پر امریکہ سے پھر ناراض تو نہیں ہو گئے کہ صوابی جلسے میں انکے مرکزی رہنماؤں نے کسی کی غلامی امریکہ سمیت قبول نہیں کا روایتی نعرہ بھی لگایا۔ حالانکہ جلسہ گاہ میں امریکی پرچم لہرا کر ٹرمپ کو متاثر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ بھٹو سے لے کر کپتان تک نعرے سب یہی لگاتے رہے اور امریکہ کی چاکری میں فخر بھی محسوس کرتے رہے۔ یہی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ جس سے جان چھڑانے کا نعرہ دیتے ہیں‘ اسی کی جھولی میں بیٹھنا مدد مانگنا سعادت سمجھتے ہیں۔ آج اگر پتہ چل جائے کہ ٹرمپ نے کپتان کے حوالے سے بات کی ہے تو دیکھ لینا ساری رات پی ٹی آئی کے کارکن رقص کرتے اور گھروں پر چراغاں کرتے نظر آئیں گے اور غلامی قبول نہیں کا نعرہ ڈھول کی تھاپ تلے دفن ہو جائیگا۔ کسی کے چہرے پر کوئی شرمندگی کے آثار نہیں ہونگے۔ لگتا ہے زلفی بخاری‘ بیرسٹر گوہر‘ سلمان اکرم اسدقیصر جیسے جن رہنمائوں نے کپتان کو ٹرمپ کی طرف سے الیکشن کا فسانہ سنایا وہ بھی سائفر کی طرح کا ڈرامہ ثابت ہو رہا ہے۔ حالانکہ دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں‘ ابھی تو ٹرمپ نے حلف تک نہیں اٹھایا‘ شاید اسکے بعد وہ کچھ کہہ لیں‘ جس کی امید رکھنا اگرچہ عبث ہے۔ مگر خواب دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں۔ بہرحال علیمہ خان اور عظمیٰ خان پارٹی پالیسی سے مایوس ہیں۔ خود کپتان بھی پارٹی قیادت کی پالیسیوں سے نالاں ہیں جبکہ صوابی جلسے میں وہی پہلے والی بیان بازی ہوئی‘علی امین گنڈاپور اسد قیصر، بیرسٹر گوہر وغیرہ نے کہا کہ بانی اسی ماہ کال دیں گے‘ سب نکلیں گے‘ ماریں گے یا مر جائیں گے۔ گھر والوں سے کہہ دیا کہ لاش نہ آئی تو نماز جنازہ پڑھ لینا۔ کپتان کو رہا کراکے دم لیں گے۔ مگر ساتھ ہی اعلان بھی کیا گیا کہ ہمارا احتجاج کسی ادارے کیخلاف نہیں ہوگا صرف اپنے قائد کو رہا کراکے واپس آئیں گے۔ ایسا وہ ہر جلسے سے قبل کہتے ہیں اوریہی ر ہنما اچانک غائب بھی ہو جاتے ہیں۔
٭…٭…٭
حکومت سندھ کے خلاف منفی پراپیگنڈا بند کیا جائے‘ شرجیل میمن
یہ تو غلط بات ہے واقعی حکومت سندھ کیخلاف منفی پراپیگنڈا بند کیا جائے اور یہ جو میڈیا پر براہ راست سڑکوں‘ گلیوں‘ بازاروں کی تباہ حالی منظر کشی کی جاتی ہے‘ یہ بھی روکی جائے۔ بھلا کیا ایسا کرنے سے حالات سدھر سکتے ہیں۔ نہیں کبھی نہیں۔ کم و بیش پندرہ سال سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے‘ جہاں لگتا ہے صرف بھٹو زندہ ہے کا نعرہ زندہ ہے‘ باقی سب کچھ دفنا دیا گیا ہے۔ جرائم انتہا پر ہیں‘ بھتہ کا بھی یہی حال ہے۔ پانی وافر ہونے کے باوجود بک رہا ہے‘ ٹینکرز مافیا کا راج ہے‘ بجلی چوری عام ہے‘ کے الیکٹرک ناکام ہے‘ ہسپتالوں میں سائیکل میں ہوا بھرنے والے پمپ سے مریض کی سانس بحال کی جاتی ہے‘ تعلیم بھی محتاج نظر ہے۔ یہ سب بقول میئر کراچی اس لئے ہے کہ وفاقی حکومت فنڈ نہیں دیتی۔ چلو مان لیتے ہیں مگرجو خود صوبہ سیملتا ہے اور جو وفاقی حکومت مالی امداد دیتی ہے‘ وہ بھی اگر لگایا جائے‘ اپنی جیبوں میں نہ ڈالا جائے تو سو فیصد نہ سہی‘ کم از کم چالیس فیصد کام بھی ہو تو نظر آنے لگتا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج تک کہہ رہے ہیں کہ جامشورو تا سہون ہائی روڈ فنڈ ملنے کے بعد بھی دس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں‘ ابھی تک شروع نہیں ہو سکی۔ ہے ناں حیرت کی بات۔ اگر سرکاری کاغذات میں دیکھیں تو نجانے کب کی بن چکی ملے گی۔ اندرون سندھ بھی نہ سڑکیں سلامت ہیں نہ سر‘ دونوں ہر وقت خطرے میں نظر آتے ہیں۔ سفید پوش ہوں یا کچے کے ڈاکو سب ہر لمحہ متحرک نظر آتے ہیں۔ قانون کی عملداری صرف حکمرانوں کے اردگرد رقص کرتی نظر آتی ہے۔ اسکے باوجود بھی لوگوں کو چاہیے کہ وہ منفی باتیں نہ کریں‘ سب اچھا ہے کی گردان دیتے رہیں۔ جیسے وزیر دہراتے ہیں۔ تو چلیں یوں کر بھی دیکھ لیں شاید اس طرح سندھ کے حالات بہتر ہو جائیں۔ سندھ کے عوام سکھ کا سانس لیں جو ناکامی سہولتوں اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سینکوں نک آئے ہوئے ہیں۔
٭…٭…٭
تین گھنٹے انتظار کرانے کے بعد گنڈاپور رہا ہونے والے کارکنوں کو ہزار ہزار روپے تھما کر چپکے سے چلے گئے۔کارکن ناراض۔ 
یہ تو وزیراعلیٰ خیبر پی کے خود اپنا ریکارڈ خراب کر رہے ہیں۔ کہتے تھے کارکن خود جلسوں دھرنوں میں شرکت کرتے ہیں۔ مگر ہوا کیا پہلے دھرنا ریلی کے بعد کارکنوں میں پانچ ہزار فی کس تقسیم کرتے رہے‘ ان کارکنوں میں نقدی اور سرکاری ملازموں کو ترقی اور ایک تنخواہ اضافی دینے کا اعلان کیا۔ اور اب رہائی پانے والے کارکنوں کو تین گھنٹے انتظار کرانے کے بعد فی کارکن صرف ایک ہزار روپے تھما کر نہ کچھ کہا‘ نہ سنا‘ پھرتی سے یوں غائب ہو گئے جیسے اسلام آباد دھرنے سے غائب ہو گئے تھے۔ انکی اس حرکت پر دھرنے والے کارکنوں نے شدید احتجاج کیا۔ ‘ اب کارکن ‘ سراپا احتجاج ہیں کہ کیا انہیں بھکاری سمجھا گیا تھا کہ ہزار روپے پکڑا کر وزیراعلیٰ یوں غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ایسی کیا وجہ تھی کہ وہ فرار ہوگئے۔ یہ تو وہی جانتے ہونگے۔مگر یاد رہے اس کا اثر آئندہ کے جلسوں اور دھرنوں کے شرکاء پر ہو سکتا ہے۔ اگر گزشتہ روز یعنی 9 مئی کے جلسے کے شرکا کو کیا دیتے ہیں اگر ان کو بھی اسی طرح ناراض کیا گیا تو کوئی بھی یوں چند ٹکوں کیلئے اپنے کام کاج چھوڑ کر کئی کئی دن کیلئے باہر نہیں نکلے گا۔ دیکھتے ہیں اب علی امین گنڈاپور ھزار روپے کی کیا تاویل پیش کریں گے۔ اور کیا کارکن اور پارٹی رہنماء اس سے مطمئن ہونگے یا پہلے کی طرح معترض رہیں گے کہ وزیراعلیٰ ہمیں بے یارومددگار لاٹھیاں اور آنسو گیس کھانے کیلئے سڑک پر چھوڑ کر کتنی آسانی سے پہلے خیبر پی کے ہائوس پہنچے پھر وہاں سے طلسمی ٹوپی پہن کر یا اڑن قالین (کھٹولے) میں بیٹھ کر پشاور اسمبلی جا پہنچے۔ یہ پراسرار کہانی آج تک ایک راز بنی ہوئی ہے‘ بقول شاعر۔
کس نے کس حال میں چھوڑا تعاون کا دامن
مسئلہ یہ تو میری جان بڑی تکرار کا ہے
شاید اسی لئے وہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ 
٭…٭…٭
بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں جائیگی‘ انڈین کرکٹ بورڈ۔ 
جب دنیا بھر کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان آکر کھیل رہی ہیں تو بھارت کو ایسی کونسی تکلیف ہے جو اسکو یہاں آنے نہیں دے رہی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تشریف نہ لانے کی وجہ سیاسی ہے۔ بھارت پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہے کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں‘ اسکے کارندے اسی لئے وقفے وقفے سے کبھی بلوچستان اور کبھی خیبر پی کے مین دہشت گردی کی وارداتیں کرکے اسکے بیانیے کو مضبوط بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ مگر بھارت کے علاوہ آخر کسی اور ملک کو اتنا خطرہ لاحق کیوں نہیں ہوتا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کی بنیاد ہی اسلام‘ پاکستان اور مسلتمانوں سے نفرت کے باعث قائم ہے۔ اصل ٹارگٹ ان کا صرف پاکستان ہے۔ جو خجنر بن کر بھارت اور اسکے زرخرید دہشت گرد تنظیموں کے سینے میں گزشتہ 77 سال سے پیوست ہے۔ وہ اس سے نجات نہ پا سکے ہیں نہ پا سکیں گے۔ اسی لئے بھارت چیمپئنز ٹرافی کیلئے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر رہا ہے۔ ڈرامہ یہ کررہا ہے کہ اس کے میچ دبئی میں کرائے جائیں۔ جب باقی ممالک پاکستان آکر کھیلیں گے تو کیا بھارت کے پائوں میں مہندی لگی ہے کہ نہیں آسکتی۔ اب پاکستان کرکٹ بورڈ بھی ’’میں میں‘‘ والی پالیسی چھوڑ کر عالمی کرکٹ کونسل میں واضح کر دے کہ اگر بھارت پاکستان نہیں آتا تو پاکستانی ٹیم بھی آئندہ بھارت نہیں جائیگی۔ بھارت پر جرمانہ کیا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ طے شدہ شیڈول سے کیوں انکار کر رہا ہے۔ جیسے کو تیسا والی بات ہی بھارت کو سمجھ میں آتی ہے۔ بہتر ہے کہ مودی حکومت سیاست کو کھیل سے دور ہی رکھے۔ عالمی کرکٹ کونسل بھی اس بارے میں سخت پالیسی بنائے جو ٹیم پابندی نہ کرے‘ اسکی عالمی ریٹنگ میں درجہ بندی میں تنزلی کی جائے اور جرمانہ بھی عائد کیا جائے ورنہ ایسے بہانے بنانے والے یونہی کرتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن